بشری اور گنڈا پور کو اسلام اباد پولیس نے محفوظ راستہ کیوں دیا؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ جب وزیراعلی خیبر پختون خواہ کی زیر قیادت سرکاری وسائل کی مدد سے سرکاری گاڑیوں اور سرکاری پولیس کے جھرمٹ میں اسلام اباد پر دھاوا بولا جائے گا اور وفاقی پولیس پر کے پی پولیس کی جانب سے سرکاری انسو گیس پھینکی جائے گی تو پھر جواب میں وفاق بھی اپنی رٹ برقرار رکھنے کے لیے ایسے حملے کا بھرپور جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عمران کی فائنل احتجاج کی کال ٹھس ہو گئی۔
اپنے تازہ تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ صوبائی حکومت وفاق پر حملہ اور اور اسے جواب نہ دیا جائے۔ چنانچہ 26 نومبر کو بھی ایسا ہی ہوا لیکن یہ ملکی سیاسی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ وفاقی حکومت نے احتجاجیوں کے حملے کا بھر پور جواب دیا جسکے نتیجے میں عمران خان کی فائنل کال پر اکٹھے کیے جانے والے بشری بی بی اور گنڈاپور کے ہزاروں کے مجمعے کو قیادت سمیت فرار ہونے میں صرف چند منٹ لگے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اپریل 2022 میں عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے بعد فروری 2024ء کے انتخاب سے قبل اور بعد میں جو حکومتی بندوبست تشکیل ہوا۔ میری دانست میں عوامی خواہشات نظرانداز کرتے ہوئے بھان متی کا کنبہ کھڑا کرنے کے مترادف تھا۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہونے کے باوجود تحریک انصاف اس بندوبست کا دھڑن تختہ کرنے میں ناکام کیوں ہورہی ہے؟ اسلام آباد پر تقریباً ہر دوسرے مہینے خیبرپختونخوا کی حکومت کے سرکاری وسائل سے لیس لشکر کے ذریعے ہوئی یلغار حکومتی بندوبست کو کمزور تر کرنے کے بجائے توانا تر بنارہی ہے۔
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ 26 نومبر کو خیبرپخونخوا سے لائے گے سرکاری لشکر نے اسلام آباد پر پھر چڑھائی کی کوشش کی۔ اب کی بار اس کی قیادت براہ راست عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ہاتھ گئی نظر آئی۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور ان کے معاون ہی محسوس ہوئے۔ ’کارروانِ انقلاب‘ کی پشاور سے روانگی سے قبل ہی حکومت پنجاب نے آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کی اہم شاہرائوں کو ’سالانہ مرمت‘ کے نام پر بند کردیا۔ رحیم یار خان سے اٹک تک پہیہ جام ہوا نظر آیا۔ 24 نومبر کی کپتان کی ’فائنل کال‘ ناکام بنانے کے لیے پنجاب حکومت اپنے ہی صوبے میں پہیہ جام کرتی نظر آئی۔ رواں برس کے اکتوبر کی پہلی تاریخ بھی پشاور سے تحریک انصاف کا ایک لشکر اسلام آباد داخلے کے لیے آیا تھا۔ وفاقی حکومت سے جائز وناجائز وجوہات کی بنا پر نفرت سے مغلوب ہوئے افراد اس حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ تحریک انصاف کا پشاور سے آیا لشکر ایک سیاسی جماعت کا ’پرامن احتجاجی مارچ‘ نہیں ہوتا۔
نصرت کے مطابق سرکاری وسائل کی بدولت وہ ’منتخب وزیر اعلیٰ‘ کے تحفظ کے لیے لازمی سازوسامان سے بھی لیس ہوتا ہے۔ اسے روکنے کے لیے آنسو گیس استعمال ہو تو اس کا توڑ بھی سرکاری آنسو گیس کی صورت میں اس لشکر ہی میں موجود ہوتا ہے۔ پشاور سے چلا لشکر اٹک پار کر جائے کہ وفاق پاکستان کی ایک اکائی دوسرے صوبے کی حد میں داخل ہو کر ایسے مناظر اجاگر کرتی ہے جو متحارب ممالک کے مابین ’جھڑپوں‘ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ بشریٰ بی بی کی قیادت نے پشاور سے چلے قافلے کو نفسیاتی وجذباتی اعتبار سے مزید تقویت پہنچائی۔ وفاق اور پنجاب حکومت کی تمام تر تیاریوں کے باوجود خیبرپختونخوا سے آیا کاررواں اسلام آباد میں داخل ہوگیا۔ حکومتی اہل کاروں کے اس کی وجہ سے اوسان خطا ہو گئے۔
سینئیر صحافی کا کہنا یے کہ ’کارروان انقلاب‘ کو ہر صورت اسلام آباد تک پہنچانے کے لیے خیبر پختون خواہ کی حکومت کی جانب سے جنگی حربے استعمال ہوئے۔ ایک فریق کی جانب سے ایسے حربے استعمال ہونے کے کے بعد دوسرے فریق سے یہ توقع باندھنا غیر منطقی تھا کہ وہ ’پرامن احتجاج‘ کی اسلام آباد آمد کو ایک تھپڑ کھانے کے بعد دوسرا گال آگے کرتے ہوئے برداشت کرلے گا۔ تخت یا تختہ کے لیے ہوئے معرکوں میں ایسے نہیں ہوتا۔ ادلے کے بدلے والی روش اختیار کی جاتی ہے اور ایسے معرکوں کے دوران عام شہری بے بس ولاچار تماشائی ہوتے ہیں۔
نصرت جاوید کے مطابق میں پرانی وضع کا عاجز صحافی ہوتے ہوئے سمجھتا ہوں کہ اگر ہم پشاور سے چلے کاررواں کو سیلف سنسر شپ یا کسی کے حکم پر نظرانداز نہ کر رہے ہوتے تو عوام کو سمجھانا بہت آسان ہوجاتا کہ اسلام آباد میں داخلے کے بعد وفاقی حکومت اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے پسپا ہونے کو مجبور کر دے گی۔ بالآخر ایسے ہی ہوا۔ رات کے اندھیرے میں 75 گھنٹوں سے مسلسل سفر کرتے اور وفاق اور پنجاب حکومت کی مزاحمت میں مصروف کارکن جب ڈی چوک سے کچھ فاصلے پر موجود خیبرپلازہ تک پہنچے تو بہت تھک چکے تھے۔ ان کی اکثریت اس گماں میں رہی کہ شاید بشریٰ بی بی فجر کی نماز کے بعد ڈی چوک پر آخری دھاوا بولنے کا حکم صادر کریں گی اور یوں ان کو دکھایا گیا انقلاب کا خواب تعبیر کی صورت اختیار کر لے گا۔
نصرت کہتے ہیں کہ یہ فرض کرتے ہوئے اکثر پارٹی ورکرز ہجوم سے کٹ کر کھانے پینے کی اشیاء ڈھونڈنے لگے۔ سینکڑوں افراد فٹ پاتھوں اور گھاس کے قطعوں میں لیٹ کر تھکن بھی دور کرتے رہے۔ لیکن جذباتی کارکنوں کا ایک گروہ علی امین اور بشریٰ کی گاڑیوں کو گھیرے ہوئے مصر رہا کہ فی الفور ڈی چوک کا رخ کیا جائے۔ کارکنان کو خدشہ تھا کہ ان کی قیادت راہ فرار اختیار کر سکتی ہے اس لیے وہ ان دونوں کا گھیرا ڈالے رہے۔ اس دوران سرکار کی جانب سے گنڈا پور کو فون کر کے یہ اطلاع پہنچا دی گئی کہ حکومت بتیاں بجھانے کے بعد آخری حملے کے لیے پولیس اور رینجرز کے تازہ دم دستوں کے ساتھ تیار ہوچکی ہے۔ بشریٰ بی بی ا ور وزیر اعلیٰ کو ’محفوظ راستہ‘ فراہم کرنے کی پہلی اور آخری پیشکش کی گئی جو قبول کر کی گئی۔ چنانچہ بشری اور گنڈا پور ورکرز کی مزاحمت کے باوجود وہاں سے فرار ہو گے۔ بتایا جاتا ہے کہ دونوں کو اسلام اباد پولیس کی ایک سرکاری گاڑی وفاقی حدود سے باہر تک نکال کر آئی ۔ دوسری جانب آنسو گیس کی بوچھاڑ، ہوائی فائرنگ اور ربڑ بلٹس کے استعمال سے ہجوم کو منتشر کر دیا گیا۔ یوں کاروان انقلاب جہاں سے آیا تھا وہیں واپس وڑھ گیا۔
نصرت کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے اپنائی گئی حکمت عملی نہایت جارحانہ تھی۔ لیکن تحریک انصاف کی پسپائی بھی زیر بحث لانا پڑتی ہے جسے زیر بحث لائو تو دوست ناراض ہوجاتے ہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم اب ناقابل برداشت ہونا شروع ہوگئی ہے۔ قریب ترین دوست بھی آپ کی نیت پر سوال اٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔ تاہم سچ یہی ہے کہ جب کوئی صوبائی حکومت وفاق پر حملہ اور ہو گی تو اسے اپنی رٹ بحال رکھنے کے لیے بھرپور جواب دینا ہوگا اور ایسا ہی ہوا۔ ایسے میں اپ چاہے پانچ لاشوں کو بڑھا چرا کر 500 بھی گنوا دیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ 26 نومبر کے احتجاج کی ناکامی سے عمران کی بارگیننگ پوزیشن اور بھی کمزور ہو گئی ہے۔