عدلیہ نے شہباز شریف حکومت کو آئینی ترامیم پر مجبور کیسے کیا؟
معروف صحافی انصار عباسی نے کہا ہے کہ اگر آج منتخب پارلیمنٹ آئینی ترامیم کے ذریعے عدلیہ کے اختیارات محدود کرنے پر مجبور ہوئی ہے تو اس کی بنیادی وجہ خود عدلیہ ہے جس نے حکومت کو اس خوف میں مبتلا کر دیا ہے کہ اگلا چیف جسٹس آتے ہی شہباز شریف حکومت کا خاتمہ کر دے گا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ 25؍ اکتوبر تک آئینی ترامیم کے منظور ہو جانے کے بعد کی سپریم کورٹ کوئی حکومت مخالف ’’مہم جوئی‘‘ نہیں کرے گی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو 25 اکتوبر سے پہلے لانے اور منظور کروانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ نیا چیف جسٹس تعینات ہونے کے بعد عدلیہ کی جانب سے مذید کوئی حکومت مخالف مہم جوئی نہ کی جائے۔ انکے مطابق مخصوص نشستوں پر جسٹس منصور علی شاہ کے 12؍ جولائی کے عجیب و غریب فیصلے کے بعد، شہباز حکومت کو ڈر ہے کہ اگلی سپریم کورٹ فروری 202 کے الیکشن نتائج کو بھی کالعدم قرار دے سکتی تاکہ پی ٹی آئی کے اقتدار کی جا سکے۔ چنانچہ 26 ویں آئینی ترامیم کا پیکج جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ اور جسٹس منصور علی شاہ کی تقرری سے پہلے لایا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے کچھ رہنما بھی 25؍ اکتوبر کے بعد کی سپریم کورٹ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس کے حق میں مہم جوئی کرے گی۔ چنانچہ حکومت کا خوف بھی تب مزید بڑھ گیا جب سپریم کورٹ کے 8؍ ججز نے 14؍ ستمبر کو ریزرو نشستوں کے فیصلے پر چیف الیکشن کمشنر کو ایک دھواں دھار خط لکھ دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب حکومت اور اسکے اتحادی پارلیمنٹ میں آئینی ترمیمی پیکیج لانے کیلئے مکمل طور پر تیار تھے۔ چنانچہ حکمران سیاسی جماعتوں کی جانب سے ججز کے خط کی ٹائمنگ پر سوال اٹھایا گیا۔ اس کے بعد چیف جسٹس فائز عیسی نے بھی رجسٹرار سپریم کورٹ سے وضاحت طلب کی کہ یہ خط حکمنامہ قرار دے کر سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ان کے علم میں لائب بغیر کیسے ڈال دیا گیا۔
یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی حال ہی میں خبردار کیا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں 25؍ اکتوبر سے زیادہ تاخیر ہوئی تو اداروں کے درمیان تصادم ہو سکتا ہے جس کا پارلیمنٹ کو نقصان ہوگا۔ بلاول نے بعض اقدامات کے حوالے سے عدلیہ کی ٹائمنگ پر بھی تنقید کی اور سوال کیا کہ مخصوص نشستوں پر حکم امتناعی جاری ہونے کے وقت کی جانچ کیوں نہیں کی جا رہی؟ انہوں نے جسٹس منصور شاہ کی جانب سے 14؍ ستمبر کو پارلیمانی پارٹی اجلاس کے دوران جاری کردہ خط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسکی ٹائمنگ پر بھینسوالات اٹھائے تھے۔ بعد ازاں بلاول نے یہ بھی کہا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ دونوں کا احترام کرتے ہیں لیکن مجھے یقین نہیں کہ منصور علی شاہ اپنی سپریم کورٹ کے دیگر ججز کو کنٹرول کر سکیں گے۔ بلاول بھٹو نے اس کے بعد ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں کہا کہ بعض ججز نے آرٹیکل 63؍ اے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں کئی بار ثابت کیا ہے کہ انہوں نے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کی کوشش کی۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھین25؍ اکتوبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد عدلیہ میں آنے والی آئندہ ممکنہ تبدیلیوں کے پیش نظر 2024ء کے انتخابات کے ممکنہ آڈٹ کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ حکومت کا مجوزہ ائینی ترامیم کا پیکج 25 اکتوبر کو قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی منظور کروانے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے۔