ٹرین حملے نے بلوچ قوم پرستوں کو مظلوم سے ظالم کیسے بنا دیا؟

معروف صحافی اور تجزیہ گار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ بلوچ قوم پرستوں نے مسافر ٹرین ہائی جیک کر کے جو قتل عام کیا ہے اس نے رولز آف گیم واقعی تبدیل کر دیے ہیں۔ ٹرین مسافروں کے ساتھ کی جانے والی بربریت کے بعد بلوچ علیحدگی پسندوں کی عذر خواہی ممکن نہیں رہی، جس طرح آرمی پبلک سکول پشاور پر طالبان کے حملے نے رولز آف گیم تبدیل کر دیئے تھے اسی طرح ٹرین دہشت گردی کے بعد بلوچستان کے عذر خواہوں کیلئے بھی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اس افسوسناک واقعے نے بلوچوں کی محرومیوں اور انکے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے مظلومیت کا جو تاثر پیدا کر رکھا تھا، اس نے اب ایک ظالم کی شکل اختیار کر لی ہے جس کے نتیجے میں اب اس ظالم دہشت گرد کے خلاف ریاستی جنگ میں عوامی تائید شامل ہو جائیگی۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ انسان بھی عجیب ہے، اس کی سوچیں کبھی آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہیں تو کبھی پاتال کی گہرائیوں تک گر جاتی ہیں۔ افراد اور اقوام کا مقدر ان کی افتاد طبع اور مزاج پر استوار ہوتا ہے، اگر افراد اور قوم، ہر معاملے کو جذباتیت یا انتہا پسندی سے دیکھیں تو وہ پٹڑی سے اتر جاتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پاکستانیوں کی غالب اکثریت گڈ طالبان اور بیڈ طالبان پر یقین رکھا کرتی تھی، آئے دن ہم لیکچر سنا کرتے تھے کہ گڈ طالبان تو پاکستان کے ہمدرد ہیں اور بیڈ طالبان پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس سے ذرا پہلے ہمیں یہ سمجھایا جاتا تھا کہ افغانستان کے اندر جہادی طالبان بہت اچھے ہیں مگر ریاست پاکستان کے خلاف اٹھنے والے جہادی طالبان برے ہیں۔ یہ حد بھی ہم نے دیکھی کہ طالبان کے عذر خواہوں یعنی ” اپالوجسٹس” کی تعداد زیادہ اور طالبان کو برا کہنے والوں کی تعداد کم ہوتی تھی۔ یہ عذر خواہ ہر طالبان حملے کے عذر بیان کیا کرتے تھے۔
وہ بتاتے ییں کہ جب میریٹ ہوٹل اسلام آباد پر خودکش حملہ ہوا تو عذر خواہوں نے کہا دراصل یہ حملہ اس لئے ہوا کہ وہاں امریکی بلیک واٹر والے میٹنگ کررہے تھے، طالبان بچیوں کے سکول تباہ کرتے تو کہا جاتا تھا کہ طالبان تعلیم کے خلاف نہیں بلکہ ان سکولوں کے اندر اُن کے خلاف آپریشن کرنے والی فوج کا پڑاؤ ہوتا ہے اسلئے وہ سکولوں کو اڑاتے ہیں۔ جب پاکستان کی مقبول ترین لیڈر بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا اور واضح ثبوت تھے کہ القاعدہ، طالبان اور خفیہ ہاتھوں نے مل کر یہ واردات کی تو بھی طالبان اور القاعدہ کے عذر خواہ یہ کہتے رہے کہ وہ تو اتنے اچھے مسلمان ہیں کہ عورت پر حملہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ یہ سب عذر خواہی ذہنی خلجان اور اپنے نظریات کا اسیر ہونے کا نتیجہ تھی۔ اب تو طالبان کے امیر نے اپنی کتاب میں خود ہی بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا ہے۔ آرمی پبلک سکول کے واقعے سے پہلے عمران خان نے کبھی طالبان کے خلاف بات نہیں کی تھی۔ ہمارے بہت سارے سیاستدان اور صحافی بھی عذر خواہی کے جرم میں برابر شریک تھے۔ فوجی قیادت بھی گو مگو کا شکار تھی، اکثر مواقع پر ہماری فوج طالبان کو ہلہ شیری دیا کرتی تھی۔ یہی اجتماعی غلطیاں، یہی فکری گو مگو اور یہی جھوٹی مصلحتیں دہشتگردی کی بڑھوتری کا باعث بنیں۔ شکر تو یہ ہے اب صحافت، فوج اور سیاست میں طالبان کے عذر خواہ کم ہوگئے ہیں۔
سینیر صحافی کا کہنا ہے کہ یہی عذر خواہی اور فکری تضاد ہمیں بلوچستان کے معاملے میں بھی نظر آتا ہے۔ جنرل مشرف کے ایما پر نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد سیاسی حلقوں میں بلوچستان کی محرومیوں کے بارے میں ایک نرم گوشہ پیدا ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دو قومی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خوا رکھنے اور بلوچستان کو قومی فنانس کمیشن میں زیادہ حصہ دینے اور اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے زیادہ صوبائی خود مختاری دینے کا متفقہ فیصلہ کیا۔ اس کے نتیجے میں مرکز کمزور ہو گیا اور صوبے مضبوط ہوگئے تاکہ فیڈریشن قائم رہ سکے۔ بلوچستان میں غائب افراد کا معاملہ ہو یا دہشت گردی کے واقعات، غالب اکثریت کا طالبان والے معاملے کی طرح عذر یہی تھا کہ یہ بلوچ محرومیوں کا ردعمل ہے، وہ اتنے دبائے جا چکے ہیں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ لیکن جب پنجابیوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان کو مارنے تک بات پہنچی تو عذر خواہوں کو مشکل پڑ گئی، اب ٹرین دہشت گردی کے بعد بلوچ تحریکوں کی عذرخواہی بالکل ممکن نہیں رہی، جس طرح آرمی پبلک سکول پشاور پرحملے نے رولز آف گیم تبدیل کر دیئے تھے اسی طرح ٹرین دہشت گردی سے بلوچستان کے حوالے سے بھی عذر خواہوں کیلئےکوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اس واقعے نے بلوچستان کی محرومیوں اور اسکے ساتھ ہونے والی زیادتی سے مظلومیت کا جو تاثر پیدا ہوا تھا، وہ اب ایک نئے ظالم کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اب اس ظالم دہشت گرد کے خلاف ریاستی جنگ میں عوامی تائید شامل ہو جائیگی۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ باقی رہ گئی بات سیاست کی اور ہماری اجتماعی غلطیوں کی تو یہ طے کر لینا چاہئے کہ جس طرح دنیا نے زور زبردستی، دہشت گردی اور مارپیٹ کو حقوق اور سیاست کی جنگ سے خارج کر دیا ہے، ہمیں بھی ویسا ہی کرنا ہو گا۔ اب ہمیں لاڈ پیار، مصلحت اور پسندیدگی کے حصار سے نکلنا ہوگا۔ اب ہمیں 2014 کی طرح کے دھرنوں، مذہبی عناصر کو حکومتوں کے خلاف استعمال کرنے اور حکومتوں کو ریاستی مداخلت کے ذریعے عدم استحکام کا شکار کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ دنیا بھر میں دہشتگردی کے خلاف دو رخی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ دہشت گردی کرنے والوں کو تو ان کی زبان میں ہی ریاست جواب دیتی ہے لیکن جو لوگ صرف حقوق اور اختیار کی بات کرتے ہیں انہیں سیاست میں جگہ فراہم کی جاتی ہے، بہت ساری سیاسی جماعتیں اور افراد دہشت گردی کے ماحول میں سٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ خود پر ظلم کرنے والوں سے ہی پیار کرنے لگتے ہیں، عرصہ دراز سے بلوچستان میں امن و امان کے حالات خراب ہیں غیر معمولی صورتحال میں الیکشن بھی درست نہیں ہوتے، نمائندگی بھی صحیح نہیں ہو رہی ۔منتخب نمائندے ہی بااعتبار اور بااختیار ہوں تو دہشت گردی کو شکست دینے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
کیا ٹرین حملے کے بعد BLA نے فوجی اہلکاروں کو یرغمالی بھی بنایا؟
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اتنی بڑی تعداد میں حملہ آوروں کا خونی ایکشن ہماری انٹیلی جنس کی بہت بڑی ناکامی ہے، ریاست نے تو کلیئرنس آپریشن سرعت اور احتیاط سے کیا لیکن بلوچستان میں انٹیلی جنس نیٹ ورک ناکام نظر آیا ہے، جس طرح کراچی میں انٹیلی جنس نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردی اور غنڈہ گردی کو ختم کیا گیا تھا، ویسا ہی طریقہ یہاں لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں دہشت گردی ختم کرنے کا دیرپا طریقہ بہرحال سڑکوں کا جال بچھانا اور ترقی و خوشحالی پھیلانےکا ہے۔ ریاست کو اپنے کم وسائل کے باوجود اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے باقی جہاں تک غیر ملکی سازشوں اور انکے ایجنٹوں کا تعلق ہے اس سے نمٹنا فوج بخوبی جانتی ہے، لیکن ضروری ہے کہ اس معاملے کو اولین ترجیح دیتے ہوئے دہشت گردوں، انکے کمانڈرز، اور ان کے سہولت کاروں کو فوری ٹھکانے لگایا جائے۔
