عمران خان اقتدار کی خاطر کس حد تک جانے کو تیار ہیں؟

عمران خان کی سیاست صرف کرسی حاصل کرنے کے مشن کے گرد گھومتی ہے جس کی تکمیل کے لئے انہوں نے میدان سیاست میں قدم رکھا تھا، اب بھی ان کی انتشاری سیاست کا مقصد صرف اقتدار لینے کے ’’مشن‘‘ کی تکمیل کے اسباب پیدا کرنا ہے چاہے ایسا کرتے ہوئے ملک بھی تباہ و برباد ہو جائے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں معروف صحافی شکیل انجم ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمران خان ’’امر بالمعروف” یعنی نیکی کا حکم دینے  کا دعویٰ کرتے تو دکھائی دیتے لیکن ‘‘نہی عن المنکر” یعنی برائی سے روکنے پر یقین نہیں رکھتے۔ اسی طرح انہیں کبھی مکمل کلمۂ طیبہ پڑھتے ہوئے بھی نہیں سنا گیا، ایسے کئی متنازع اشارے انکی شخصیت کو مشکوک و متنازع بناتے ہیں جو ایک لیڈر ہونے کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ ابکے ن

مطابق عمران کی شخصیت میں ایک بنیادی خامی یہ ہے کہ جو بھی جج آئین اور قانون کے مطابق ان کے خلاف فیصلہ دے، وہ ملک کا غدار، جانبدار اور حکومت کا پٹھو قرار پاتا ہے اور تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بریگیڈ اس کا جینا دوبھر کر دیتا ہے۔ عمران خان خود کو ریاست اور ریاستی اداروں سے بالاتر سمجھتے ہیں اور انہیں بے توقیر کرنا بہادری سمجھتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی صحافی ان کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کرے اور سچ بولے یا لکھے تو اس کا مقابلہ انتہائی بزدلی کے ساتھ کرتے ہوئے سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے اس کے علاوہ اس کے پورے خاندان کی عزت و عصمت کو تارتار کرنے پر تل جاتے ہیں۔

شکیل انجم کہتے ہیں کہ کل تک آرمی چیف سے ملاقات پر خوشی کا اظہار کرنے اور فوج سے براہ راست مذاکرات کو نجات کا ذریعہ ماننے والے عمران خان نے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا پانے کے بعد ایک بار پھر قوم کو حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پڑھنے کا مشورہ دے دیا یے اور موجودہ فوجی قیادت کا موازنہ جنرل یحییٰ سے کر دیا ہے۔ موصوف نے 14 برس قید کی سزا پانے کے بعد فرمایا ہے کہ میں حقیقی آزادی کی جدوجہد پر کوئی سمجھوتا نہیں کروں گا چاہے مجھے کتنا لمبا عرصہ بھی قید میں کیوں نہ رہنا پڑے۔ تام دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ روز پہلے ہی عمران خان نے جیل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ ان سمیت تمام اسیران جلد ازاد کر دیے جائیں گے۔

اڈیالہ جیل میں قید ہونے کے بعد سے پچھلے ایک برس کے دوران مسلسل فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کی بھیک مانگنے والے عمران خان نے 14 برس قید کی سزا ملنے کے بعد اپنی ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں واضح درج ہے کہ یحیٰی خان نے اپنی کرسی بچانے کے لیے ملک دو لخت کیا تھا۔ آج بھی یحیٰی خان ٹو یہی کھیل کھیل رہا ہے- موصوف نے یہ بھی الزام لگایا یے کہ فوج کی حراست میں قید افراد پر بدترین تشدد ہوا ہے اور اب بھی ان سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں۔ لیکن شکیل انجم کے مطابق عمران خان یہ الزامات لگاتے وقت اپنا دور اقتدار بھول گئے جب ملک بھر کی جیلیں ان کے سیاسی مخالفین سے بھری ہوئی تھیں اور خان صاحب ان کے بارے میں اعلانیہ کہا تھا کہ یہ سب جیل میں تفریح کرنے نہیں، بلکہ بامشقت سزائیں کاٹنے آئے ہیں۔ لیکن اب جب وقت پلٹا کھا کر بدل چکا ہے تو سوال یہ یے کہ عمران خان جیل میں ایک عام آدمی کی طرح سزا کاٹنے کے لیے تیار کیوں نہیں اور مسلسل آسائشوں کا مطالبہ کیوں کرتے رہتے ہیں؟

عمران خان نے اپنی تازہ ٹویٹ میں دعوی کیا ہے کہ تحریک انصاف کی جدوجہد کا مقصد جمہوریت کی سربلندی، آئین و قانون کی حکمرانی، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا اور بنیادی شہری حقوق کا تحفظ ہے۔ لیکن شکیل انجم کہتے ہیں کہ درحقیقت عمران خان اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ یہ تمام باتیں ان کے سیاسی ایجنڈے میں شامل نہیں بلکہ عوام اور معصوم کارکنوں کا بے وقوف بنانے کے لئے کی گئی ہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈاپور کی آرمی چیف کے ساتھ غیر رسمی ملاقات کے بعد ای آر او ملنے کے حوالے پر امید تھے لیکن 190 ملین پاؤنڈز کیس میں سزا پانے کے مایوس ہو کر پھر انہی حرکتوں پر اتر آئے جن کی وجہ سے وہ زوال کی اندھی گہرائی میں گرے ہیں اور اب باہر نکلنا دشوار دکھائی دیتا ہے۔

شکیل انجم کہتے ہیں کہ عمران خان کی جانب سے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کا ذمہ دار فوج کو ٹھہرانے اور جوڈیشل کمیشن بنانے کے مطالبے کا مقصد فوج کو بدنام کرنا ہے۔ انکا کہنا یے کہ جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کرنے والے عمران خان شاید علی امین گنڈاپور کے حالیہ بیان کو نظرانداز کر گئے جس میں انہوں تصدیق کی ہے کہ 9 مئی کے واقعہ میں پی ٹی آئی کے کارکن ملوث تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ علی امین گنڈاپور کے اس اعتراف کے بعد عمران کی جانب سے جو ڈیشل کمیشن قائم کرنے کے مطالبہ کا کیا کوئی جواز ہو سکتا ہے؟

Back to top button