عمران کی اہلیہ بشری اور بہن علیمہ PTI کو کیسے تباہ کر رہی ہیں
24 نومبر کو اسلام اباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کرنے والی علیمہ خان اور 26 نومبر کو جلوس لے کر دارالحکومت پہنچنے والی بشرٰی بی بی پولیس ایکشن شروع ہوتے ہی جوتیاں اٹھا کر بھاگ جانے کے بعد بھی تحریک انصاف کا کباڑا کرنے سے باز نہیں آ رہیں جس سے پارٹی کی مرکزی قیادت سخت پریشان ہے۔ بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کی پارٹی میں معاملات اور فیصلہ سازی میں مسلسل مداخلت کی وجہ سے پارٹی چیئرمین برسٹر گوہر خان سے لے کر نیچے تک کی مرکزی قیادت بد دل ہونا شروع ہو گئی ہے اور کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی یے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی ہمشیرہ اور ان کی اہلیہ کو گفتگو کرنے کی تمیز بھی نہیں اور وہ پارٹی رہنماؤں کو ملازموں کی طرح جھڑکنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ یہ سلسلہ تب تیز ہو گیا ہوا جب خیبر پختون خواہ ہاؤس پشاور میں بشری بی بی نے پارٹی کے ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی کو بلا کر دھمکیاں دیں اور احتجاج کے لیے 5 سے 10 ہزار کارکنان فی حلقہ لانے کا حکم جاری کیا۔ اسکے بعد یہ خبر سامنے آئی کہ بشری بی بی نے پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کی اتنی زیادہ بے عزتی کی کہ انہوں نے اہنے عہدے سے ہی استعفی دے دیا۔ سلمان راجہ کا موقف تھا کہ وہ پارٹی قیادت کو تو جواب دے ہیں لیکن عمران خان کے رشتہ داروں کو نہیں۔
اس حوالے سے تازہ تریں واقعہ اگلے روز پیش آیا جب علیمہ خان نے اڈیالہ جیل میں ایک کیس کی سماعت کے بعد عدالت کے احاطے میں بیرسٹر گوہر علی خان اور سلمان اکرم راجہ کے ساتھ میڈیا کی موجودگی میں بحث شروی کر دی۔ علیمہ خان نے بیرسٹر گوہر سے کہا کہ جب پارٹی نے اسلام اباد کے احتجاج میں 278 لاشیں گرنے کا موقف اپنا رکھا ہے تو پھر تم نے یہ کیوں کہا کہ احتجاج میں صرف 12 پارٹی ورکرز مارے گئے۔ اس حوالے سے بیرسٹر گوہر اور سلمان راجہ کا موقف تھا کہ ہم 278 لاشیں گرنے کا دعوی ثابت ہی نہیں کر سکتے لہذا پارٹی کی ساکھ بچانے کے لیے ضروری ہے کہ سچ بولا جائے۔ تاہم علیمہ خان نے دونوں کو جلی کٹی سنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ واقعہ اس صورتحال کا عکاس ہے جس کا سامنا بیشتر پارٹی رہنماؤں کو ہے۔
پارٹی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنماؤں نے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں، درجنوں ایف آئی آرز میں نامزد ہیں، جیلوں کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے کاروبار ختم ہوگئے، لیکن پھر بھی ہماری توہین کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس وقت میڈیا پر سلمان اکرم راجہ اور صاحبزادہ رضا کے استعفوں کی وجوہات سامنے آئی ہیں، وہیں اور بھی کئی ایسے معاملات ہیں جن کا سامنا پارٹی رہنماؤں کو ہے لیکن ان کے متعلق عوام لاعلم ہیں۔
خیبر پختون خواہ سے تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور بھی عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کی وجہ سے مشکل صورتحال میں گھرے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارٹی سیکرٹری جنرل کے عہدے سے استعفی دینے والے سلمان اکرم راجہ تو پریس کانفرنس کر کے بتانا چاہتے تھے کہ بشری بی بی نے ان کے ساتھ کتنی زیادہ بدتمیزی کی لیکن انہیں بڑی مشکل سے روکا گیا۔ انکا گلہ تھا کہ بشری بی بی نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے سامنے ان کی تضحیک کی۔
یاد رہے کہ حال ہی میں لیک ہونے والی ایک آڈیو گفتگو میں سلمان اکرم راجہ کی جگہ لینے والے نئے سیکٹری جنرل علی محمد خان کو پارٹی کی سیاسی کمیٹی میں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ بشریٰ بی بی نے عمران خان کی ہدایت کو نظر انداز کیا اور احتجاجی مارچ کو ریڈ زون لیجانے پر اصرار کیا جس کا نتیجہ پولیس ایکشن کی صورت میں نکلا اور سب کو بھاگنا پڑ گیا۔ علی محمد خان نے 24؍ نومبر کے احتجاج کا اعلان پارٹی چیئرمین یا سیکرٹری جنرل کے ذریعے کرانے کی بجائے عمران کی بہن علیمہ سے کرانے کے فیصلے پر بھی تنقید کی۔
پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما شوکت یوسفزئی بھی کھل کر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ سنگجانی میں احتجاجی قافلہ کیوں نہیں روکا گیا جبکہ وفاقی حکومت نے یہ پیشکش کھلے عام کی تھی۔ انہوں نے بشری بی بی جیسے غیر سیاسی لوگوں کو پارٹی کی سیاسی فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کی اجازت دینے پر پارٹی قیادت پر تنقید بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی غیر سیاسی شخصیت ہیں، انہوں نے اگر ڈی چوک جانے پر اصرار کیا بھی تھا تو کیا پارٹی قیادت اتنی کمزور تھی کہ وہ اس کی اجازت دیدے؟ پارٹی کے کئی رہنما بشریٰ بی بی کی وٹو نامی بہن اور اُن کی ترجمان شفا یوسفزئی کی جانب سے میڈیا کو کہی گئی باتوں پر بھی ناراض ہیں۔
دی گارڈین کو حال ہی میں دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں بشریٰ کی ترجمان مشال یوسفزئی نے کہا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان اپنی اہلیہ پر مکمل بھروسہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پارٹی قیادت قابل اعتبار نہیں اور اُن کیخلاف کام کر رہی ہے۔
دوسری جانب پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک طرف علیمہ خان پارٹی رہنماؤں سے کہہ رہی ہیں کہ وہ 24؍ نومبر کے احتجاجی مارچ میں ہونے والے جانی نقصان کے حوالے سے مبالغہ آمیز اعداد و شمار بتائیں، تو دوسری طرف بشریٰ بی بی خیبر پختونخوا میں پارٹی کے منتخب ارکان اسمبلی سے براہِ راست رابطے کر رہی ہیں۔
تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ پارٹی رہنما دونوں خواتین کا احترام کرتی ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ دونوں کا پی ٹی آئی کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے پارٹی کے معاملات میں دونوں کی جانب سے اثر انداز ہونے کی تردید کی اور کہا کہ چونکہ دونوں خواتین کا عمران خان کے ساتھ قریبی تعلق ہے اور ان کی جیل میں عمران خان تک رسائی ہے لہٰذا وہ بانی چیئرمین کے پیغامات پارٹی تک پہنچاتی ہیں۔