جیل سے رہائی کے لیے عمران اور اسٹیبلشمنٹ کی ڈیل کا کتنا امکان ہے ؟

امریکی وفد کی جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان، حکومتی ذمہ داران اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقاتوں کے بعد ملکی سیاسی حلقوں میں افواہوں کا بازار گرم ہے۔ جہاں ایک طرف یوتھیوں کی جانب سے زوروشور سے عمران خان کی رہائی کے دعوے کئے جا رہے ہیں وہیں دوسری جانب مقتدر حلقوں اور پی ٹی آئی کے مابین ڈیل کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ تاہم سیکورٹی ذرائع کا دعوی ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین کسی قسم کی ڈیل کے امکانات معدوم ہیں کیونکہ بانی پی ٹی آئی کی ماضی کی وعدہ خلافیوں، الزام تراشیوں اور زبان درازیوں کے بعد فوجی اسٹیبلشمنٹ ان پر اعتبار کرنے کو بالکل تیار نہیں اس لئے عمران خان کے کسی ڈیل یا دباؤ کے نتیجے میں جیل سے باہر آنے کا کوئی امکان نہیں۔
دوسری جانب روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق عمران خان کی جانب سے ڈیل کی ٹھوس کوشش کا عمل ایک بار پھر عین وقت پر پٹری سے اتر گیا ہے۔ اس بار بانی پی ٹی آئی نے سانحہ 9 مئی پر معافی سمیت وہ تمام شرائط تسلیم کرلی تھیں، جو کامیاب ڈیل کا لازمی جزو ہیں تاہم اس کے باوجود بات بنتے بنتے بگڑ گئی۔
واضح رہے کہ پچھلے پونے دو برس کے دوران، جب سے عمران خان جیل گئے ہیں، ہر تیسرے روز ان کے باہر آنے اور پس پردہ ڈیل کا چرچا ہوتا ہے۔ خاص طور پر پی ٹی آئی کے ہمدرد یو ٹیوبرز میں سے تو بہت سے، کئی بار باقاعدہ ہیلی کاپٹر تک اڈیالہ جیل پہنچا چکے ہیں، جس نے بانی پی ٹی آئی کو لے کر آنا تھا۔ یوتھیوں کی جانب سےیہ چرچا بھی کیا گیا کہ ٹرمپ کے آتے ہی ایک فون کال پر عمران خان کے لئے جیل کے دروازے کھل جائیں گے۔ اس نوعیت کا دعویٰ کرنے والوں میں فٹ پاتھئے یو ٹیوبرز کے ساتھ پی ٹی آئی کے ہمدرد اینکرز اور ایسے سیاستدان بھی شامل تھے، جنہوں نے زندگی بھر پارٹیاں بدلیں۔ لیکن ایسی تمام پیش گوئیاں ناکامی سے دو چار رہیں۔ایسے میں پچھلے ایک ہفتے سے ایک بار پھر عمران خان کے ساتھ اڈیالہ جیل میں پس پردہ مذاکرات کا شور ہے۔
ذرائع کے مطابق بتایا گیا ہے کہ عمران خان نے حال ہی میں اپنی رہائی سے متعلق ایک پروپوزل اپنے ان قریبی لوگوں کو دیا تھا، جو دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ اس پروپوزل کے مطابق پی ٹی آئی کے عام دعوئوں کہ ’’ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان‘‘ کے برعکس عمران خان فی الحال جیل سے نکلنے کے لئے ہر شرط ماننے کو تیار ہے۔ جسے عرف عام میں ’’لیٹ جانا‘‘ کہتے ہیں۔
ذرائع کے بقول تازہ پیشکش میں بانی پی ٹی آئی نے سانحہ 9 مئی پر معافی مانگنے کی بنیادی شرط سمیت دیگر شرائط پر بھی آمادگی کا اظہار کیا تھا اور اپنا یہ پیغام متعلقہ اہم لوگوں تک پہنچانے کا کہا تھا۔ اس پیغام کے ذریعے عمران خان نے معافی کے ساتھ اپنے اوورسیز سوشل میڈیا نیٹ ورک کو خاموش کرانے کی ہامی بھی بھرلی تھی۔ ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ پاکستان اور اس کے اہم اداروں کے خلاف امریکہ میں لابنگ کا عمل بھی روک دیا جائے گا۔
اسی طرح عمران خان کی جانب سے اس بات پر بھی آمادگی کا اظہار کیا گیا تھا کہ سیاسی عدم استحکام ختم کرنے کے لئے موجودہ حکومت کو پانچ برس مکمل کرنے دیئے جائیں گے۔ بطور اپوزیشن پی ٹی آئی سیاسی جلسے جلوس تو کرے گی۔ لیکن انتشار پر مبنی لانگ مارچ یا دھرنوں سے گریز کیا جائے گا۔ جبکہ آئندہ انتخابات کے لئے ایک سیاسی تحریک اور جدوجہد کی تیاری کی جائے گی، جس کے لئے اپنے پرپوزل میں انتخابی عمل کو شفاف بنانے کی یقین دہانی مانگی گئی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کی ان پیشکشوں کو ابھی فریق دوئم تک پہنچانے کی تیاری کی جارہی تھی، جس کے بعد ممکنہ طور پر اس پروپوزل پر شاید غور بھی کیا جاتا کہ عین وقت پر بات بگڑ گئی۔ بات یوں بگڑی کہ سلمان اکرم راجہ کی قیادت میں پی ٹی آئی کا ایک وفد بلوچ یکجہتی کونسل سے اظہار یکجہتی کے لئے اس دھرنے میں پہنچ گیا، جو اختر مینگل نے ماہ رنگ کی رہائی کے لئے دیا ہوا ہے۔ جہاں لطیف کھوسہ نے ایک زہریلا خطاب بھی کیا۔
ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے اس عمل کے نتیجے میں عمران خان ہی رہائی کا سارا مشن فلاپ ہو گیا اور عمران خان نے اپنی رہائی کے حوالے سے جو پیشکش اور بنیادی شرائط تسلیم کرنے کا پیغام بھجوایا تھا وہ بھی اپنی موت آپ مر گیا۔ذرائع کے مطابق پروپوزل متعلقہ لوگوں تک پہنچ جانے کی صورت میں ممکنہ طور پر اس پر سوچ و بچار ہوسکتی تھی۔ لیکن اب یہ امکان ختم ہو چکا ہے۔ یوں عمران خان کی رہائی کی کوششوں کے عمل میں حصہ لینے والے درمیان کے لوگوں کی کوششوں کو بھی بڑا دھچکا لگا ہے جس کی وجہ سےوہ مایوسی کا شکار ہو چکے ہیں۔
بلوچستان کی دو اہم ہائی ویز 11 روز سے بند، تاجروں کو کروڑوں کا نقصان
ذرائع کے مطابق ماہ رنگ بلوچ کی جانب سے بی ایل اے کے دہشت گردوں کی حمایت کے تناظر میں ریاست کسی صورت اب نرم رویہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ اب سیاست کے لبادے میں بی ایل اے کے دہشت گردوں کی حمایت اور سہولت کاری کرنے والوں کو کسی صورت رعایت نہیں دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے بی ایل اے کے دہشت گردوں کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کے قتل عام کی مذمت کے بجائے بی ایل اے کے حامیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی نے مقتدر حلقوں کو پہلے سے زیادہ ناراض کردیا ہے۔ جس کے بعد لگتا یہی ہے کہ فی الحال عمران خان کی جانب سے آنے والی کسی پیشکش کو گھاس نہیں ڈالی جائے گی۔ بلکہ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کے خلاف مزید سختیوں کا امکان ہے۔ اس سلسلے میں مزید اہم گرفتاریوں کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔ اس سوال پر کہ جب عمران خان نے خود ہی اپنی رہائی کے لئے تمام شرائط تسلیم کرنے کا پروپوزل دے دیا تھا تو وہ اپنے وفد کو اختر مینگل کے دھرنے میں جانے سے روکنے کی ہدایت بھی کر سکتے تھے۔ یہ ممکن نہیں کہ بانی پی ٹی آئی کا وفد ان کی اجازت کے بغیر چلا گیا ہو۔ تاہم اس سوال کے جواب میں ذرائع کا کہنا تھا کہ اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ آزاد ہوائوں میں لگژری لائف گزارنے والی پی ٹی آئی قیادت کے زیادہ تر لوگ نہیں چاہتے کہ عمران خان باہر آئیں۔ کیونکہ اس صورت میں انہیں اپنا سیاسی مستقبل مخدوش دکھائی دے رہا ہے۔ شاید اسی وجہ سے پی ٹی آئی کی جیل سے باہر موجود قیادت نے ایسی کارروائی ڈالی جس کے بعد عمران خان کی جیل یاترا کی مزید طوالت یقینی ہو گئی۔