آرمی چیف کا پاکستان کو ہارڈ سٹیٹ بنانے کا خواب کیسے پورا ہو گا ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان کو ایک ہارڈ سٹیٹ یعنی سخت گیر ریاست بنانے کی خواہش تو ظاہر کر دی ہے لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ریاست سڑک سے سٹارٹ ہوتی ہے اور سڑک پر ہی ختم ہوتی ہے۔ جس روز کوئی قوم سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی سختی سے پاس داری شروع کر دیتی ہے اس دن اسکی سرحدیں بھی ہارڈ ہو جاتی ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے لہٰذا ہم سر تاپا ایک سافٹ سٹیٹ یا نرم ریاست ہیں۔

اپنی تازہ تحریر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ آپ اگر دنیا کے کسی ملک کے لاء اینڈ آرڈر‘ انصاف اور اخلاقیات کا اندازہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ صرف اس کی سڑکیں دیکھ لیں‘ آپ کو پورا معاشرہ اور اس کا نظام آئینے کی طرح صاف دکھائی دے گا‘ آپ یقین کریں ریاست سڑک سے سٹارٹ ہوتی ہے اورسڑک پر ہی ختم ہوتی ہے‘ اگر سڑکیں صاف ہیں اگر ٹریفک قاعدے سے چل رہی ہے اور اگر لوگ سلیقے سے گاڑیاں چلا رہے ہیں تو پھر اس ملک کے عوام بھی مہذب ہیں‘ وہاں کا قانون بھی سخت ہے‘ وہاں عدالتوں سے بھی انصاف ملتا ہے اور وہ ریاست بھی ہارڈ ہوتی ہے۔ لیکن اگر آپ کو سڑکوں پر ڈسپلن‘ سلیقہ اور ٹریفک رولز کی پابندی نظر نہیں آتی تو پھر آپ آنکھیں بند کر کے اعلان کر دیں کہ یہ ریاست سافٹ بھی ہے اور نالائق بھی۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ میں دو تہائی دنیا دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارا ملک اول تو ریاست نہیں ہے‘ یہ صرف لوگوں کا ہجوم ہے‘ دوئم یہ کہ ہم پانی کی طرح سافٹ ہیں‘ ہمیں جس طرف نشیب نظر آتا ہے ہم اس طرف بہنا شروع کر دیتے ہیں اور اس بہاؤ کے دوران ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا رخ چند لمحے قبل کس طرف تھا۔ انکا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے شخصی نظام ہے‘ ایک شخص بدلتا ہے تو پورے ملک کا مزاج بدل جاتا ہے‘ ہمارا آئین اور ہمارے ملی نغمے اور نعرے تک بدل جاتے ہیں‘ ہماری ریاست مجاہدین کو خارجیوں اور خارجیوں کو مجاہدین میں تبدیل کرتے ہوئے 10 منٹ بھی نہیں لیتی‘ انڈیا کبھی تو ہمارا دشمن ہو جاتا ہے اور کبھی دوست‘ نواز شریف اور آصف زرداری کبھی سیکیورٹی رسک بن جاتے ہیں اور کبھی ملک کے محافظ اور محب وطن۔ ہم کبھی عمران خان کو سرٹیفائیڈ صادق اور امین بنا دیتے ہیں اور کبھی اشتہاری مجرم اور ملک دشمن۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ آپ ذرا ریاست کی سافٹ نس ملاحظہ کیجیے‘ ہم کبھی اسے ریاست مدینہ بنا دیتے ہیں اور کبھی اسے جنرل مشرف کی روشن خیال اور لبرل ریاست میں تبدیل کر دیتے ہیں‘ میں بہرحال ناقابل یقین حد تک پرامید شخص ہوں چناں چہ پچھلے نعروں کی طرح اس بار بھی  آرمی چیف کے بیان پر یقین کر رہا ہوں۔ جنرل عاصم منیر ریاست کو ہارڈ اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں‘ میں ان پر بھی اسی طرح یقین کر رہا ہوں جس طرح میں نے جنرل قمر باجوہ‘ جنرل پرویز مشرف اور جنرل ضیاء الحق پر کیا تھا‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں ریاست کو کسی بھی حال میں خالہ جی کا ویہڑہ نہیں ہونا چاہیے کہ جس وقت جس کا دل چاہے وہ منہ اٹھا کر جدھر چاہے گھس جائے اور جس طرف سے چاہے نکل جائے۔ ہم سے جو بھی غیر ملک کوئی مجرم یا قیدی مانگے، ہم اسے اس کے حوالے کر دیں اور وہ بعدازاں وزیراعظم بن کر واپس آجائے اور اسے باہر بھجوانے والے اسے لائین میں لگ کر سیلوٹ کریں‘ ہمیں یقینا ہارڈ سٹیٹ ہونا چاہیے۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں لیکن جنرل عاصم منیر یہ یاد رکھیں کہ ریاست سڑک سے سٹارٹ ہوتی ہے اور سڑک پر ختم ہوتی ہے لہذا سب سے پہلے قوم کو ہارڈ پالیسی اپناتے ہوئے ٹریفک قوانین کی پابندی سکھائی جائے تا کہ اسکی سرحدیں بھی ہارڈ ہو سکیں۔ ہم زیادہ کچھ نہ کریں، بس 20 کلومیٹر اور 20 لاکھ لوگوں کے شہر اسلام آباد کو ہارڈ سٹیٹ کا پائلٹ پروجیکٹ بنالیں‘ ہم صرف اسلام آباد کی ٹریفک کنٹرول کر لیں‘ ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ اسلام آباد میں کوئی شخص لائسنس کے بغیر ڈرائیونگ نہیں کر سکے گا۔ ڈرائیونگ لائسنس شناختی کارڈ سے منسلک ہوگا اور یہ پوائنٹ بیسڈ ہو گا‘ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی سے پوائنٹس ڈاؤن ہوتے چلے جائیں گے اور یوں آخر میں بار بار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کا شناختی کارڈز‘ پاسپورٹ اور بینک اکاؤنٹس بلاک ہو جائیں گے۔

کیا پیپلز پارٹی شہباز حکومت کی حمایت ختم کرنے جا رہی ہے؟

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں کوئی موٹر سائیکل سوار اور اس کے پیچھے بیٹھا ساتھی ہیلمٹ کے بغیر نہیں ہو گا‘ کسی موٹر سائیکل پر تیسری سواری نظر نہیں آئے گی ورنہ تینوں چھ ماہ جیل میں گزاریں گے اور ان سے جیل میں رہائش کا کرایہ بھی وصول کیا جائے گا۔ تمام سڑکوں پر ٹریفک کیمرے لگے ہوں گے‘ اوور اسپیڈنگ کا جرمانہ 20 ہزار روپے سے سٹارٹ ہو گا‘ شہر میں 20 سال پرانی گاڑی نہیں چل سکے گی‘ گاڑیوں کا فٹنس سرٹیفکیٹ اور انشورنس لازم ہو گی‘ اس میں کسی سے کوئی رعایت نہ کی جائے۔

دھواں پھینکنے والی گاڑی تیسری وارننگ کے بعد ہمیشہ کے لیے ضبط کر لی جائے اور زیبرا کراسنگ کے علاوہ کسی دوسری جگہ سے سڑک کراس کرنے والوں کو کم از کم پانچ ہزار روپے جرمانہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ تیسری مرتبہ جرم دہرانے پر یا تو سخت قید کی سزا ہو، یا سال بھر کے لیے شناختی کارڈ ضبط کر لیا جائے۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہو جائے تو آپ یقین کریں کہ سال بھر میں اسلام آباد ہارڈ سٹی بن جائے گا۔ جس دن یہ شہر ہارڈ سٹی بن گیا اس دن پوری ریاست ہارڈ سٹیٹ بننا شروع ہو جائے گی، لیکن اگر ہم اپنی رٹ 20 کلومیٹر کے اس شہر پر نافذ نہ کر سکے تو پھر ہم قیامت تک سات لاکھ مربع کلومیٹر کی ریاست کو ہارڈ سٹیٹ نہیں بنا سکیں گے، چناںچہ جنرل صاحب پلیز اسلام آباد کی سڑکوں سے سٹارٹ لیں‘ ہم اگر یہاں کام یاب ہو گئے تو پورے ملک میں کامیاب ہو جائیں گے، ورنہ پھر پاکستان کو ہارٹ سٹیٹ بنانے کا خواب بھول جائیں۔

Back to top button