کیا عمران خان میکاؤلی کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں؟

یوٹرن لینے کو عظیم حکمرانوں کا طرہ امتیاز قرار دینے والے عمران خان کے ناقدین کہتے ہیں کہ وہ دراصل میکاؤلی کے سیاسی فلسفے پر عمل پیرا ہیں لہازا انہوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے جو وعدے اور دعوے کئے تھے، وزیراعظم بننے کے بعد ان سب سے پھر گئے اور کرسی بچانے کے لیے میکاؤلی کے فلسفے کے عین مطابق انہوں نے اپنے مخالفین کو پابند سلاسل کر کے پاکستان کو ایک فاشسٹ سٹیٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔
16ویں صدی کے سیاسی مفکر نیکولو میکاؤلی اپنی کتاب ’دی پرنس‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایک کامیاب حکمران کو اپنے وعدے نبھانے سے اگر سیاسی نقصان ہو رہا ہو تو اسے ہرگز انکی پاسداری نہیں کرنی چاہیے۔ مورخین کے خیال میں اٹلی سے تعلق رکھنے والے میکاؤلی وہ پہلے سیاسی مفکر ہیں جنھوں نے سیاست کو اخلاقیات سے علیحدہ کر کے پیش کیا۔ ان کی توجہ کا مرکز غلط اور صحیح کے بجائے اس بات پر تھا کہ حقائق کیا ہیں اور کیا حاصل کرنا ضروری ہے۔ وہ فلسفیانہ خیالات کے بجائے عملی اور حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی پر زور دیتے تھے۔ اپنی کتاب پرنس میں انھوں نے کامیاب حکمرانی کے لیے یہ مشورہ بھی دیا کہ ’آپ کو اپنے لیے بچھائے گئے جال کو پہچاننے کے لیے لومڑی کی طرح چالاک ہونا چاہیے، اور بھیڑیوں کو ڈرا کر بھگانے کے لیے شیر کی طرح خونخوار ہونا چاہیے۔ اسکا کہنا تھا کہ جو لوگ صرف شیر کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں وہ بے وقوف ہوتے ہیں۔
’دی پرنس‘ میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ’اگر آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہو کہ آپ ایک ایسا حکمران بنیں جس سے عوام خوفزدہ ہوں یا ایسا حکمران جس سے عوام محبت کریں، تو آپ کو خوفزدہ کرنے والا حکمران بننا چاہیے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کون سے حالات تھے جن سے گزر کر میکاؤلی نے اقتدار اور طاقت کے بارے میں یہ نظریات قائم کیے۔ وہ کون سے تجربات تھے جن کے نتیجے میں اس نے حکمرانوں کو یہ مشورے دیے۔ کیا میکاولی واقعی اخلاقیات سے عاری ایک ’شیطان صفت‘ انسان تھے جیسا کہ انھیں پیش کیا جاتا یے۔
یاد رہے کہ نیکولو میکاؤلی 1469 میں فلورنٹائن ریپبلک، آج کے اٹلی کے فلورنس شہر، میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک ایسی سابق ریپبلک تھی جو اس وقت مشکلات کا شکار تھی لیکن اپنے آپ پر فخر کرتی تھی۔ میکاؤلی کی وفات 21 جون 1527 میں ہوئی تھی۔ لیکن پچھلے تقریباً 500 سال سے میکاؤلی سے نفرت کرنے والے اور انھیں چاہنے والے دونوں طرح کے لوگ موجود ہیں۔ اس کی وجہ ان کے مرنے کے چند برس بعد چھپنے والی انکی مشہور کتاب ‘دی پرنس’ ہے۔ میکاؤلی ریپبلیکن دور میں اچھے عہدوں پر رہے اور انھوں نے ‘ڈسکورسس’ نامی ایک کتاب لکھی۔ لیکن وہ مشہور اور بدنام اپنی کتاب ‘دی پرنس’ کی وجہ سے ہوئے جس میں وہ ایک مضبوط اور مطلق العنان حکمران کی بات کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آزادی، حقوق، مذہب یا اخلاقی اقدار کی سیاست میں کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ آہنی ہاتھوں کی پالیسی اپنانی چاہیے۔
اسی لیے زیادہ تر لوگوں نے انھیں ایک منفی سیاسی مفکر کے طور پر دیکھا ہے۔ ان کے بارے میں مثبت خیالات رکھنے والے اور ان کی تحریروں کو سیاق و سباق میں دیکھنے والے بہت کم لوگ ہیں۔
میکاولی کے زمانے میں فلورنٹائن پر میڈیچی خاندان کی ایک مطلق العنان حکومت قائم تھی۔ میکاؤلی کا تعلق ایک ممتاز خاندان سے تھا لیکن یہ کوئی امیر خاندان نہیں تھا۔ اس خاندان کے ریپبلیکنز کے ساتھ کھلے عام تعلقات تھے۔ ریپبلیکن نظریات جاگیردارانہ نظام کے خلاف تھے اور وہ بادشاہ کے بجائے ایک کونسل کے ذریعے خود مختار حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ حکمران خاندان کے بانی کوسیمو ڈی میڈیچی کی مخالفت کرنے کی وجہ سے میکاؤلی کے دو رشتے دار بھائیوں کے سر قلم کیے گئے تھے۔ میڈیچی خاندان نے 1434 میں فلورنٹائن کا ایک ریپبلک کی حیثیت سے خاتمہ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ 1512 میں جب میکاؤلی 43 سال کے تھے تو اُن کی سیاسی زندگی شدید مشکلات کا شکار ہو گئی۔ حکمران میڈیچی خاندان سے ان کے تعلقات خراب ہو گئے اور اُن پر سازش کرنے کا الزام لگا کر انھیں قید کر دیا گیا جہاں ان پر شدید تشدد ہوا۔ اسکے بعد انھیں جلا وطن کر دیا گیا۔ اس دوران انکی کتاب ’دی پرنس‘ بھی انھیں میڈیچی خاندان کی حمایت نہیں دلوا سکی بلکہ اس کی وجہ سے وہ فلورنٹائن کے عوام سے بھی دور ہو گئے۔
اس زمانے میں جیلوں میں ملزموں سے اعترافِ جرم کروانے کے لیے تشدد کا ایک طریقہ استعمال کیا جاتا تھا جسے ’اسٹریپیڈو‘ کہا جاتا تھا۔ ملزم کے بازوں کو پشت کی جانب کر کے کلائیوں سے باندھ کر لٹکا دیا جاتا تھا اور اس کے بعد ملزم کو اچانک فرش کی طرف گرایا جاتا تھا۔ یہ عمل اتنی بار دہرایا جاتا تھا کہ ملزم اپنے جرم کا اعتراف کر لیتا تھا۔ تشدد کے اس بہیمانہ طریقے کے دوران زیادہ تر لوگوں کی شانے ٹوٹ جاتے، پٹھے بُری طرح زخمی ہو جاتے اور بازو ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو جاتے تھے۔ میکاؤلی کو اس طریقے سے چھ مرتبہ فرش پر گرایا گیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس انتہائی تکلیف دہ مرحلے سے گزرنے کے بعد میکاولی نے کاغذ اور قلم مانگا اور سازش بارے اپنا اعترافِ جرم لکھنا شروع کیا حالانکہ سچ یہ تھا کہ میکاولی کے پاس اعتراف کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اس کا نام سازش کرنے والے ملزمان کی فہرست میں شامل تھا لیکن میڈیچی خاندان کے حکمرانوں کے قتل کی ناکام سازش میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ مؤرخین کے مطابق جولیانو ڈی میڈیچی نامی حکمران کو مخالفین کی جانب سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی اور اس میں میکاولی کا نام بھی شامل کر دیا گیا۔
میکاؤلی دو ہفتے قید میں رہے۔ فروری 1513 میں انھوں نے معافی حاصل کرنے کی ایک مضطرب کوشش میں جولیانو میڈیچی کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ اشعار لکھے۔ یہ اشعار رقت آمیزی، جراتِ اظہار اور اعلیٰ پائے کی ذہانت سے بھرپور تھے۔ شعر کچھ یوں تھے: ’جولیانو میرے پاؤں میں بیڑیاں ہیں، میرے سیل کی دیواروں پر رینگنے والی جوئیں تتلیوں جتنی بڑی ہیں اور چابیوں اور تالوں کی آوازیں مجھے رومن خداؤں کی آسمانی بجلیوں کی گڑگڑاہٹ کی طرح سنائی دیتی ہیں۔’ میکاولی نے اپنی شاعرانہ شکایت میں سوال کیا کہ ’کیا شاعروں سے اس طرح پیش آتے ہیں؟‘