پانچ اہم طالبان لیڈرپاکستان کے خلاف کیوں ہیں؟


امریکی اتحادی افواج سے دو دہائیوں تک جنگ لڑنے کے بعد دوبارہ افغانستان کا قبضہ حاصل کرنے والے افغان طالبان کی قیادت میں اس وقت پانچ طاقتور ترین فیصلہ ساز شخصیات میں ملا عبدالغنی برادر، ملا ہیبت اللہ اخونزادہ، ملا محمد یعقوب، کمانڈر سراج الدین حقانی اور ملا عبدالسلام ضعیف شامل ہیں جو مستقبل کے افغانستان میں اہم ترین کردار ادا کریں گے۔ ان تمام لوگوں کا ماضی میں پاکستان سے اچھا اور برا دونوں طرح کا تعلق رہا ہے۔
افغان طالبان کی قیادت کے بارے میں کم ہی تفصیلات سامنے آتی ہیں کیوں کہ ان کی قیادت رازداری سے کام کررہی ہے یہاں تک کہ جب انہوں نے افغانستان میں 1996 سے 2001 تک اپنی حکومت قائم کی اس وقت بھی ان کی حکومت کے امور کس طرح سر انجام دیے جارہے تھے لوگوں کو اس حوالے سے کم ہی معلومات تھیں۔جیسا کہ اس اسلامی گروپ کا سربراہ طاقت کا سر چشمہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے افغان طالبان کی قیادت سے متعلق کچھ اہم تفصیلات بیان کی جا رہی ہیں۔ افغان طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کو 2016 میں ان کے پیش رو ملا منصور اختر کی کوئٹہ میں امریکی ڈرون حملے میں موت کے بعد طالبان کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ملا منصور کی موت ہی پاکستان کے افغان طالبان کے ساتھ اختلافات کی بڑی وجہ بنی۔ اس عہدے پر فائز کیے جانے سے قبل ہیبت اللہ ایک مذہبی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے، انہیں عسکری کمانڈر سے زیادہ روحانی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ افغان طالبان کی قیادت سنبھالنے کے بعد القاعدہ کے سربراہ ایمن الظوہری نے ہیبت اللہ اخونزادہ کی بیعت کی تھی، جس پر انہوں نے ہیبت اللہ کو ‘وفاداروں کے امیر’ قرار دیا تھا۔ واضح رہے کہ طالبان اور القاعدہ کے درمیان کئی دہائیوں سے بہترین تعلقات قائم ہیں۔ یہ عہدہ سنبھالنتے وقت ہیبت اللہ پاکستان میں ایک خفیہ مقام پر قیام پذیر تھے۔ ہیبت اللہ نے ایک ایسے وقت میں طالبان کی قیادت سنبھالی تھی جب جنگجوؤں کی قیادت کو ملا عمر کی موت کو کئی سالوں تک چھپائے جانے کے بعد اس کا عوامی سطح پر اعلان کرنے اور اس حوالے سے جنگجوؤں میں پیدا ہونے والی تشویش کو ختم کرنے جبکہ ملک میں دیگر عسکری محاذوں پر دباؤ کا سامنا تھا۔ ہیبت اللہ عموما خاموش رہتے ہیں اور صرف مذہبی تہواروں پر ہی ان کے بیانات سامنے آتے ہیں۔ یاد رہے کہ دو برس پہلے انہیں کوئٹہ میں ایک مسجد میں بم دھماکے کے ذریعے مارنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس مسجد کے امام ان کے سگے بھائی تھے جو حملے میں جاں بحق ہو گئے لیکن ملا ہیبت اللہ اخونذادہ زندہ بچ نکلے۔
افغان طالبان کے دوسرے اہم ترین رہنما ملا عبدالغنی برادر ہین جن کی پرورش افغانستان کے علاقے قندہار میں ہوئی جو طالبان کی جائے پیداش بھی ہے۔ دیگر افغانوں کی طرح ان کی زندگی کا بیشتر حصہ بھی 1970 میں روسیوں کے قبضے کے بعد مزاحمت کار کے طور پر گزرا، انہوں نے ملا عمر، سابق طالبان سربراہ اور تنظیم کے بانی، کے ساتھ کئی محاذوں میں حصہ لیا۔ دونوں نے مل کر 1990 میں طالبان کی بنیاد رکھی جس کا مقصد ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور افراتفری کو ختم کرنا تھا، جو روسیوں کی پسپائی کے بعد ملک میں وسیع پیمانے پھیل گئی تھی۔ امریکی حملے اور طالبان کی حکومت کے اختتام پر 2001 میں غنی اس مختصر مزاحمتی گروپ کا حصہ تھے جس نے صدر حامد کرزئی کی حکومت کے ساتھ کام کیا۔ ایسا ایک معاہدے کے بعد ہوا تھا۔ خیال رہے کہ 2010 میں پاکستانی حکام نے امریکہ کے ایما پر ملا برادر کو گرفتار کرلیا تھا۔ پھر 2018 میں افغان طالبان سے امن معاہدہ کرنے کی خاطر امریکا نے ہی غنی کی رہائی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا تھا۔ رہائی کے بعد وہ قطر منتقل ہوئے۔ قطر منتقل ہونے پر ملا برادر کو طالبان کے سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس دوران انہوں نے امریکا سے کامیاب امن معاہدہ بھی کیا۔
اسی طرح ایک اور اہم طالبان رہنما ملا محمد یعقوب ہیں جو طالبان کے سابق اور بانی سربراہ ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں۔ ملا یعقوب افغان طالبان کی طاقت ور ترین عسکری شوریٰ کے سربراہ ہیں، جو فیلڈ میں موجود کمانڈرز کی رہنمائی کرتی ہے اور انہیں جنگ کی حکمت علمی سے متعلق آگاہ کرتی ہے۔ ان کے نسب اور والد سے تعلق کے باعث انہیں افغان طالبان جنگجوؤں کے درمیان بہت اہمیت حاصل ہے۔ محمد یعقوب افغان طالبان کے نائب امیر اور سکیورٹی چیف بھی ہیں۔ ان کی تعیناتی افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد کی تھی۔ یعقوب نے ابتدائی تعلیم پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایک مدرسے سے حاصل کی تھی۔ یعقوب بظاہر ایک ’سیاسی اور عسکری سوچ‘ کی شخصیت ہیں اور وہ اس عہدے پر عسکری اور سیاسی وِنگ کے درمیان رابطے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
افغان طالبان کے ایک اور اہم ترین رہنما کمانڈر سراج الدین حقانی روس کے خلاف مذاہمت کرنے والے سابق کمانڈر جلال الدین حقانی کے بیٹے ہیں۔ یاد رہے کہ سراج الدین حقانی نہ صرف طالبان کے اہم لیڈر ہیں بلکہ وہ حقانی نیٹ ورک کے بھی انتہائی طاقت ور ترین سربراہ تصور کیے جاتے ہیں۔
حقانی نیٹ ورک کو امریکا نے عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے اور بہت طویل عرصے سے انہیں انتہائی خطرناک افغان جنگجو تنظیم کے طور پر جانا جاتا ہے جبکہ انہوں نے دو دہائیوں تک امریکا اور نیٹو افواج کے خلاف حملے جاری رکھے۔ سراج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 2001 کے بعد سے زیادہ تر وقت پاکستان کے سرحدی علاقوں میں گزارا ہے۔ انکا باقی خاندان بھی پاکستان میں مقیم ہے اور چند برس پہلے ان کے ایک بھائی کا قتل بھی اسلام آباد کے قریب ہی ہوا تھا۔ حقانی نیٹ ورک خود کش حملوں کے لیے جانا جاتا ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ گروپ کئی سالوں تک کابل میں ہونے والے انتہائی خطرناک حملوں میں ملوث رہا ہے۔ اس گروپ پر افغان حکومت کے اہم عہدیداروں کے قتل اور اغوا کا بھی الزام لگایا جاتا ہے جبکہ ان پر مغربی شہریوں کو تاوان کے لیے اغوا کرنے کا بھی الزام ہے جن میں سے ایک امریکی سپاہی کو 2014 میں رہا کیا گیا تھا۔
افغان طالبان کے ایک اور اہم ترین لیڈر پاکستان میں سابق افغان سفیر رہنے والے ملا عبدالسلام ضعیف ہیں جنہیں پاکستانی حکام نے 2001 میں تمام سفارتی قوائد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔ چناچہ ضعیف کے پاکستان کے بارے میں جذبات اچھے نہیں۔ وہ اس حوالے سے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ امریکیوں نے مجھے مارا پیٹا اور بے لباس کر دیا مگر اسلام آباد میں حکومت کرنے والے اسلام کے محافظ میرے پاکستانی حکام میرا تماشہ دیکھتے رہے۔ ان کی زبان پر لگے تالے میرے لیے ناقابل فراموش ہیں۔ یہ وہ لمحات تھے جن کو میں قبر میں بھی نہیں بھول سکوں گا۔۔ ضعیف کہتے ہیں کہ وہ اتنا تو کہہ سکتے تھے کہ یہ ہمارے مہمان ہیں، ہماری موجودگی میں ان کے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا جائے۔‘ ضعیف نے یہ سب گوانتانامو جیل کی یاداشتوں پر مشتمل اپنی کتاب میں لکھا ہے۔

Back to top button