آئی ایم ایف کے انکار پر حکومت کا پلان بی کیا ہوگا؟

حکومت نے آئی ایم ایف کے ممکنہ انکار پر ملکی معیشت کے پہئے کو چلانے کیلئے پلان بی کی تیاریاں شروع کر دی ہیں، اور اس کے لیے مالی سال 2024 کے بجٹ میں کچھ تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں۔
شاہنواز برطانوی نژاد پاکستانی ہیں، وہ برطانیہ میں ہوٹل انڈسٹری کا کاروبار کرتے ہیں اور کئی سالوں سے پاکستان میں اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، لیکن ملکی حالات کے پیش نظر وہ ارادہ ملتوی کرتے رہے ہیں۔
چند دن قبل انہوں نے خبر پڑھی کہ پاکستان نے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ’معاشی بحالی‘ کی جامع حکمت عملی جاری کی ہے، جسے ’اکنامک ریوائیول پلان‘ کا نام دیا گیا ہے اور اسے فوج کی سپورٹ حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ سپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) بھی قائم کی گئی ہے۔
آئی ایم ایف کے انکار کے بعد اسے معیشت بحالی کا ’پلان بی‘ بھی کہا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں دوست ممالک کی مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کروائے جانے کا ارادہ ہے، جن میں زراعت، لائیو سٹاک، معدنیات، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی اور زرعی پیداوار جیسے شعبے سرفہرست ہیں۔
مزید تحقیق کرنے کے بعد انہیں علم ہوا کہ حکومت اس منصوبے کے ذریعے اگلے پانچ سے سات سالوں میں تقریبا 120 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان لانے کا دعویٰ کر رہی ہے، جبکہ سی پیک کے تحت چین نے پاکستانا میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا تھی۔ اس طرح تکنیکی اعتبار سے اسے سی پیک سے بڑا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ خبر ان کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھی لیکن یہ خوشی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکی۔ جب انہوں نے پاکستان اور بیرون ملک کچھ کاروباری دوستوں، بزنس چمبرز اور کاروباری تنظیموں سے رابطہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ابھی تک حکومت پر عدم اعتماد برقرار ہے اور عوامی سطح پر اس منصوبے کو اس طرح پذیرائی ملتی دکھائی نہیں دے رہی جس طرح سی پیک کو ملی تھی، اب وہ اپنا سرمایہ پاکستان پھنسانا نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کریں گے جب تک مقامی بزنس کمیونٹی اور عوام کا اعتماد بحال نہیں ہوگا۔
بلال اسلم ایک معروف کاروباری شخصیت ہیں، وہ کئی دہائیوں سے درآمدات اور مینوفیکچرنگ سے وابستہ ہیں اور پاکستان کے معاشی نظام پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ معاشی بحالی کے پلان بی کو سی پیک کی طرح پذیرائی نہ ملنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ سی پیک کا اعلان چینی صدر نے پاکستان میں آ کر کیا تھا جبکہ اکنامک ریوائول پلان کا اعلان حکومت پاکستان نے خود ہی کر دیا ہے۔
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ میں کوئی منفی بات نہیں کرنا چاہتا لیکن حقیقت کا سامنا کرنا بھی ضروری ہے۔ ملکی آبادی کا 40 فیصد حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور کاروبار میں آسانی کے انڈیکس میں پاکستان دنیا کے نچلے ترین ممالک میں شامل ہے۔ ان حالات میں 112 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا دعویٰ کسی معجزے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
کرنسی ایسکچیبج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ صاحب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت پر عوام کے عدم اعتماد کی صورت حال یہ ہے کہ بیرون ملک پاکستانی بینکوں کی بجائے گرے مارکیٹ میں ڈالرز بھیج رہے ہیں۔ انٹربینک اور گرے مارکیٹ میں فرق 20 روپے سے بڑھ گیا ہے۔‘
سابق چئیرمین ایف بی آر شبر زیدی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت اور فوج مل کر کوشش تو کر رہے ہیں، اب یہ کامیاب ہوگا یا نہیں اس بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہے لیکن اگر حکومت یہ کہے کہ یہ آئی ایم ایف کا متبادل ہے تو سراسر غلط بیانی ہے۔ چند ممالک سے سرمایہ کاری آ جانے اور معاشی اصلاحات لانے میں فرق ہوتا ہے۔ جتنی جلدی حکومت اس حقیقت کو مان لے گی عوامی اعتماد بھی بحال ہونا شروع ہو جائے گا۔
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کے چیئرمین زہیب خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نئے منصوبے میں ’سنگل ونڈو‘ کا آپشن متعارف کروایا گیا ہے، جس کے تحت سرکاری محکموں میں بیوروکریٹک تاخیری حربوں سے جان چھڑائی جائے گی۔
سرمایہ کاروں کے لیے شکایت ہیلپ لائن بنائی گئی جہاں 24 گھنٹوں میں مسئلہ حل کیا جاتا تھا، یہ سب ڈیجیٹل تھا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کے تجربوں کے پیش نظر پاکستانی عوام شاید یہ ماننے کو تیار نہیں کہ
شگفتہ اعجاز ائیرہوسٹس کی ملازمت چھوڑ کر شوبز میں کیسے آئیں؟
پاکستانی بیورو کریسی میں بھی یہ انقلابی تبدیلی آ سکے گی۔