کیا عمران خان، ظل شاہ کیس میں گرفتار ہوں گے؟

آٹھ مارچ کو پاکستان تحریک انصاف کی ریلی میں ہلاک ہونے والے پڑتی کارکن علی بلال عرف ظل شاہ کے والدین کی جانب سے اپنے بیٹے کی ہلاکت کا ذمہ دار پی ٹی آئی کو قرار دینے کے ساتھ ہی حکومت نے واقعے کے حقائق چھپانے اور تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے کا مقدمہ درج کرتے ہوے عمران خان اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کا عندیہ دے دیا ہے گزشتہ روز لاہور پولیس نے تحریک انصاف کے کارکن علی بلال عرف ظلِ شاہ کی موت کو ٹریفک حادثہ قرار دے کر ایک اور مقدمہ درج کر لیا ہے ۔ جس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، فواد چوہدری اور یاسمین راشد کو بھی نامزد کیا گیا ہے،مقدمے میں ٹریفک حادثہ، قتل بالسبب اور ثبوت و حقائق کو چھپانے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔پولیس کے مطابق دوسرامقدمہ تھانہ سرور روڈمیں درج ہوا، جس میں پہلےکیس کےتفتیشی افسر ہی مدعی بنے ہیں ،پولیس نے علی بلال کو اسپتال منتقل کرنے والے ملزمان کے بیان پر مقدمہ درج کیاہے ۔بیان کے مطابق علی بلال عرف ظلِ شاہ کو بیچ سڑک میں چلتے ہوئے تیز رفتار ڈالے نے ٹکر ماری،جس کے بعد انہیں زخمی حالت میں سروسز اسپتال منتقل کیا،لیکن وہ دم توڑگیا۔ موت کی اطلاع ملتے ہی ڈالے والے اسپتال سے فرار ہوگئے، ڈالا نجی کمپنی کے زیر استعمال تھا، کمپنی کے ڈائریکٹر راجہ شکیل نے یاسمین راشد کے ساتھ زمان پارک جاکر عمران کو اطلاع بھی دی لیکن انہوں نے پولیس کو اطلاع نہ کی۔ دوسری طرف ایک نجی چینل کے ایک انٹرویو میں ظلِ شاہ کی والدہ نے کہا کہ ان کے بیٹے کو سازش سے قتل کیا گیا ، یہ تحریک انصاف والوں نے کیا ہے ، جب سے عمران خان کو گولی لگی ، ظلِ شاہ ہر وقت زمان پارک میں بیٹھا رہتا تھا ، کہتا تھا عمران خان میرے ووٹ سے وزیراعظم بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ ظلِ شاہ عمران خان کی حفاظت کر رہا تھا مگر میرے بیٹے کی حفاظت نہیں کی گئی ، یاسمین راشد ہمیں فون کرنے کے بجائے ظلِ شاہ کو اسپتال کیوں نہیں لے گئیں ، عمران خان سے کہتی ہوں کہ تمہاری بڑی مہربانی ، مجھے میرا بیٹا واپس دے دو ۔ظلِ شاہ کے والد نے پولیس کی تحقیقات پر اعتماد کا اظہارکرتے ہوۓ بیٹے کی موت کے خلاف مقدمے کی درخواست میں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی اور آئی جی کے خلاف الزامات سے دست بردار ہوگئے۔ دریں اثنا پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ظلِ شاہ کیس میں شواہد مٹانے کے جرم میں یاسمین راشد، راجہ شکیل اور عمران خان گرفتار کیے جا سکتے ہیں۔ ظلِ شاہ کیس میں شواہد مسخ کرنے کی کوشش پر مقدمہ درج ہو چکا ہے، پولیس ایک آدھ دن میں گرفتاری کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ حادثے کے بعد گاڑی چھپائی گئی، آپ ظلِ شاہ کو اسپتال چھوڑ کر بھاگ کیوں گئے؟ اس بات کا تین دن سے پتا تھا تو چھپ کیوں رہے تھے؟ یاد رہے کہ گیارہ مارچ کو مقتول پی ٹی آئی کارکن علی بلال کی ہلاکت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے آئی جی پنجاب عثمان انور کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس واقعے کے بعد ہم آپس میں بیٹھے اور اسی وقت ہمارے پاس یہ اطلاعات آئیں کہ وہ بندہ تشدد سے نہیں مرا، اس پر آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور نے اسی وقت کام شروع کردیا،
آئی جی پنجاب عثمان انور نے پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کل مقتول علی بلال کے والد لیاقت علی نے ویڈیو پیغام میں مجھ سے اپیل کی کہ ان کے بیٹے کی موت کے بارے میں مکمل معلومات دی جائے، تفتیش کی جائے اور انصاف دیا جائے۔ہماری یہ ذمہ داری 3 روز قبل ہی شروع ہوگئی تھی جب 6 بج کر 52 منٹ پر ایک کالے رنگ کی ویگو نے علی بلال کی لاش سروسز ہسپتال پہنچائی، فوری طور پر یہ اطلاع ہمارے پاس پہنچی اور ہم نے اسے ٹریک کرنا شروع کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر یہ شخص پولیس تشدد سے ہلاک ہوا یا اس کے بارے میں ایسی کوئی چیز سامنے آئی جس میں پولیس کی زیادتی ثابت ہو تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ وارث شاہ روڈ پر گلبہار سیکیورٹیز کی بیسمنٹ سے یہ گارڑی برآمد ہوئی، گاڑی میں علی بلال کا خون بھی موجود تھا، فارنزک جانچ کروادی گئی ہے۔آئی جی پنجاب نے بتایا کہ 6 بج کر 24 منٹ پر یہ گاڑی فورٹریس سٹیڈیم کے پل پر علی بلال سے ٹکرا گئی تھی، گاڑی چلانے والوں کا کوئی کرمنل ریکارڈ نہیں تھا، ان کی علی بلال کو مارنے کی کوئی سازش نہیں تھی، انہوں نے اس کو فوری طورپر گاڑی میں ڈالا اور 6 بج کر 31 منٹ پر سی ایم ایچ ہسپتال پہنچایا لیکن گیٹ بند تھا، بعدازاں وہ اسے مختلف چوکوں سے لے کر 6 بج کر 52 منٹ پر سروسز ہسپتال پہنچے۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگ گرفتار کیے جاچکے ہیں جنہیں جلد عدالت میں پیش کردیا جائے گا، اس گاڑی کے مالک کا نام راجا شکیل ہے جن کی علی بلال کو قتل کرنے کی کوئی نیت نہیں تھی، یہ پی ٹی آئی وسطی پنجاب کے نائب صدر ہیں۔
آئی جی پنجاب عثمان انور نے کہا کہ اس بدقسمت واقعے کو پولیس اور نظام کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا لیکن ہماری ٹیکنکل ٹیم نے یہ سازش ناکام بنادی، انہوں نے اس پر کام کیا اور انہیں وہ موبائل میسجز مل گئے جس میں اس کا ذکر ہے، یہ تمام معلومات آپ کو فراہم کردی جائے گی کہ کس سیاسی لیڈر سے کس وقت کیا بات کی گئی۔نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً ساڑھے 8 بجے گاری کے مالک راجا شکیل نے پی ٹی آئی رہنما یاسمین راشد کو اس حادثے کی تفصیلات دیں، یاسمین راشد نے اگلے روز صبح 9 مارچ کو انہیں زمان پارک بلایا۔
انہوں نے کہا کہ اگلے روز وہ لوگ ایک سے 3 بجے کے درمیان زمان پارک پہنچ گئے تھے، یاسمین راشد کے ہمراہ راجا شکیل زمان پارک کے اندر پہنچے اور تمام رہنماؤں کو تفصیلات سے آگاہ کیا، پھر یاسمین راشد نے باہر آکر راجا شکیل کو کہا کہ آپ کی ملاقات کی ضرورت نہیں ہے میں نے سب کو آگاہ کردیا ہے، آپ جائیں اور آرام کریں، اس واقعہ کے بعد یہ لوگ روپوش ہوگئے تھے، گاری کے ڈرائیور نے اپنی داڑھی صاف کروالی تھی۔انہوں نے کہا کہ اس سب کے باوجود یاسمین راشد سمیت پی ٹی آئی کے دیگر رہنما پریس کانفرنسز کرتے رہے کہ علی بلال کو تشدد کرکے قتل کیا گیا، علی بلال کے والد کے پاس جا کر یہ لوگ کہتے رہے کہ یہ قتل ہوا ہے، آپ کو ڈٹے رہنا ہے، ہم آپ کو پیسے دیں گے۔
پریس کانفرنس کے دوران گاڑی کے ڈرائیور جہانزیب کے اعترافی بیان کی ویڈیو سنائی گئی جس میں اس نے تسلیم کیا کہ اس کی گاڑی سے علی بلال کو ٹکر لگی تھی۔
اشنا شاہ سوشل میڈیا پر پھر تنقید کی زد میں کیوں؟