چاند پر پہنچنے والا پہلا پاکستانی

تحریر : عمار مسعود
پھر ہوا یوں کہ زمین پر بسنے والے تمام ملکوں نے فیصلہ کیا کہ اب یہ زمین رہنے کے قابل نہیں رہی۔ بڑھتی آبادی، موسمیاتی تغیر و تبدل، زلزلے اور قدرتی آفات اب بنی نوع انسان کےلیے ہمہ وقت خطرہ بن گئی ہیں اس لیے تمام ممالک کے ایک مشترکہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ زمین کے تمام باسیوں کو اب چاند پر منتقل کر دینا چاہیے۔
چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر پاکستان اس اجلاس کا حصہ نہیں بنا۔ ابتدا امریکہ، روس اور چین کے شہریوں سے ہوئی، پھر جاپان، فرانس، بیلجیم اور ہالینڈ بھی اپنے شہریوں سمیت چاند پر منتقل ہوگئے۔
ان کے دیکھا دیکھی سری لنکا، یوگنڈا اور مالدیپ جیسے ممالک بھی اپنے شہریوں کو اپنے دامن میں سمیٹے چاند کی طرف عازم سفر ہوگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے تمام ہی ممالک ماسوائے پاکستان کے چاند پر پہنچ گئے۔ زمیں پر صرف پاکستان کے شہری رہ گئے۔
ساری دنیا خالی ہونے کے باوجود پاکستانی شہریوں کے مسئلے وہی رہے جو پہلے تھے۔ وہی زمینوں پر قبضے کے جھگڑے، مخالفین پر بہتان تراشی، میٹرو بس کی تعمیر کی حتمی تاریخ، کرپشن کے خلاف جہاد اور نئے پاکستان کی بنیاد کے حوالے سے ہی پاکستانی جھگڑتے رہتے۔
چاند پر وقت صدیاں آگے چلا گیا مگر زمین پر عمران خان کے دور حکومت میں وقت بیل گاڑی پر بیٹھ گیا تھا اور گھڑی کی سوئیاں منجمد ہوگئی تھیں۔
چاند پر بسنے والوں نے سائنسدانوں کی مدد سے اب چاند پر آکسیجن کا بندوبست کرلیا تھا۔ جدید تکنیک کے باعث پانی کے ڈیم بھی بن گئے تھے۔
اب چاند پر لہلہاتی فصلیں اُگی ہوئی تھیں۔ سرسبز باغات لگے ہوئے تھے۔ انسانوں کے رہنے کےلیے منظم بستیاں بنی ہوئی تھیں۔ چاند کی سرزمین کو آلودگی سے پاک رکھنے کےلیے سولر اڑن طشتریاں ایجاد ہوگئی تھیں۔ مریضوں کے علاج کےلیے جدید ترین خلائی میڈیکل اسٹیشن بن گیا تھا۔
جہاں مریض لمحوں میں شفا یاب ہو جاتے۔ نئی پود کو تعلیم دینے کےلیے تعلیم کا اعلیٰ انتظام ہوگیا۔ چاند پر ملکوں نے اپنی علیحدہ علیحدہ بستیاں نہیں بنائیں۔ سب دنیا کی مخلوق مل جل کر رہتی تھی۔ رنگ نسل کی تمیز بھی ختم ہوگئی تھی۔
ہر پیدا ہونے والے بچے کی کلائی میں ایک الیکٹرانک چپ پیوست کردی جاتی اور وہی چپ اس کی شناخت بنتی۔ اڑن طشتری کا لائسنس بھی اسی چپ کو اسکین کرنے سے بنتا، خلائی اسکول میں داخلہ بھی اسی چپ کی وجہ سے ملتا، اسپتال میں علاج بھی کلائی کے اسکین کی مدد سے ہوتا تھا۔
چاند پر زراعت نے بہت ترقی کرلی تھی۔ ایک ایکڑ میں اتنی گندم پیدا ہوتی کہ لاکھوں لوگوں کےلیے کافی ہوتی۔ چاند پر کھانا سورج کی روشنی سے پکایا جاتا اور ایندھن کی آلوددگی سے چاند کو محفوظ رکھا جاتا۔
خوارک کے بے شمار ذخائر تھے۔ ہر شخص کو ضرورت سے زیادہ حصہ ملتا تھا۔ لوگوں کو تندرست رکھنے کےلیے چاند پر جگہ جگہ سٹیلائٹ پارک بنائے ہوئے تھے۔ جہاں نوجوان کسرت اور بزرگ واک کرتے تھے۔ چاند پر تمام ملکوں کی مشترکہ انجمن کےاجلاس میں چاند کے باسیوں کو ہمہ وقت تحقیق اور تخلیق پر راغب کیا جاتا۔ نئی دنیاؤں کی تلاش میں مون خلائی اسٹیشن ہر وقت مگن رہتا۔
چاند پر سب لوگ تعمیری کاموں میں مصروف رہتے۔ ایک وقت پر سوتے اور ایک وقت پر جاگتے۔ سب کو ایک سی متوازن اور صحت بخش خوارک ںصیب ہوتی۔ نظام ایسا بن گیا تھا کہ کوئی کسی کا حق نہیں مارتا۔ جرم کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
اس لیے پولیس اسٹیشنز اور عدالتوں کا کھںڈت بھی نہیں پالنا پڑتا تھا۔ ہر چیز ایک خود کار سسٹم سے چلتی جس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں تھا۔
چاند پر اگرچہ ممالک کی تخصیص ختم ہو چکی تھی مگر پھر بھی ایک مجلس عاملہ موجود تھی۔ جو اکثر اپنے اجلاسوں میں چاند کی بہتری کے اقدامات پر غور کرتی تھی۔ انہی اجلاسوں میں پاکستان کا اکثر ذکر رہتا تھا۔ مجلس عاملہ اس بات پر تاسف کا اظہار کرتی کہ ابھی تک پاکستان چاند کا باسی نہیں بنا۔
حد تو یہ ہے کہ پورے پاکستان سے ایک شہری بھی چاند پر آکر پرسکون زندگی گزارنے پر تیار نہیں ہوا۔ اسی طرح کے ایک اجلاس میں اچانک ایک خلائی روبوٹ ہانپتا کانپتا جلوہ افروز ہوا۔
اس نے سانس کو سنبھالے بغیر متحدہ مجلس عاملہ کو یہ خوشخبری سنائی کہ پاکستان سے پہلا پاکستانی چاند کے سفر پر رضامند ہوگیا ہے۔ اتنی بڑی خوشخبری سن کر اجلاس میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
تمام ممالک نے پہلے پاکستانی کے چاند تک کے سفر کو محفوظ بنانے کےلیے ہر ممکن اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ خلائی سائنسدانوں نے پہلے پاکستانی مسافر کی ایک ایک لمحہ کی حرکت کو مانیٹر کرنے کا فیصلہ کیا۔
بالاخر وہ دن آ ہی گیا جب پہلے پاکستانی نے عازم چاند ہونا تھا۔ چاند پر موجود سائنسدان ایک ایک لمحہ مائکرو اسکوپس اور کمپیوٹر اسکرینز کی مدد سے مانیٹر کر رہے تھے۔
چونکہ چاند پر تمام ممالک کی زبانیں ختم ہو گئی تھیں اور ایک کمپیوٹر کوڈ کے مطابق گفتگو کی جاتی تھی اس لیے یہ توقع عبث تھی کہ پاکستانی مسافر اس کمپیوٹر کی زبان کو سمجھے گا۔
اردو چاند پر کسی کو آتی نہیں تھی اس لیے جدید ترین مانیٹرز کے ذریعے پاکستانی مسافر کو سفر کی تمام معلومات اشاروں کی زبان میں دی گئیں۔
پاکستانی مسافر پہلے تو چاند گاڑی میں بہت گھبرایا ہوا تھا مگر جب ایک دفعہ چاند گاڑی چل پڑی تو اس کے چہرے پر کچھ قرار آگیا۔ چاند پر موجود تمام ہی سائنسدانوں نے ایک غیر معمولی بات نوٹس کی کہ پاکستانی مسافر کا اسپیس ہیلمٹ عام ہیلمٹ سے سائز میں کچھ بڑا ہے۔
لیکن چونکہ اس سے خلائی سفر مِں کوئی خلل نہیں پڑ رہا تھا اس لیے سائںسدانوں نے اس پر زیادہ بات کرنا مناسب نہ سمجھا۔
پاکستانی مسافر کے چاند پر پہنچنے میں ابھی کچھ گھنٹے باقی تھی۔ چاند پر سب ہی بہت بے چینی سے اس تاریخی لمحے کا انتظار کر رہے تھے۔ چاند کے سارے ٹی وی چینل اس تاریخی مرحلے کی لائیو کوریج کر رہے تھے۔ اسی حوالے سے بریکنگ نیوز بھی چل رہی تھیں۔ چاند کے ٹی وی چینلوں پر خلائی تجزیہ کار اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ آخر پاکستانی مسافر اس سفر پر کیسے آمادہ ہوگیا اور چاند پر پہلا پاکستانی مسافر اترنے کے بعد پہلی بات کیا کرے گا، پہلا جملہ کیا بولے گا؟
آخر وہ تاریخی لمحہ آن پہنچا۔ پاکستانی مسافر کا راکٹ چاند کی اسپیس اسٹیشن سے آکر ٹکرایا۔ اب پہلے مرحلے پر پاکستانی مسافر نے ایک چھوٹے سے خلائی شٹل میں منتقل ہونا تھا اور وہاں اس نے اپنا ہیلمٹ اتار کر، اپنے اسپیس سوٹ سے آزاد ہو کر چاند کی سرزمین پر قدم رکھنا تھا۔
اسپیس شٹل کے باہر چاند پر رہنے والے لاکھوں باسی اس نئے مسافر کی زبان سے نکلے پہلے جملے کا بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔
چاند کے تمام ٹی وی اسٹیشن خلائی شٹل سے لائیو ٹرانسمیشن دے رہے تھے۔ پاکستانی مسافر اپنے راکٹ سے اترا، چھوٹے اسپیس شٹل میں داخل ہو کر اس نے اپنا بڑا سا ہیلمٹ اتار کر ہاتھ میں الٹا پکڑ لیا۔ جیسے ہی چاند کا دروازہ کھلا پاکستانی مسافر نے الٹے ہیلمٹ کو سوالیہ انداز میں آگے بڑھا کر پوچھا، آٹا ہے؟
بتانے والے بتاتے ہیں اس کے بعد چاند کے سب چینل اشتہارات کے وقفے پر چلے گئے، چاند کی روشنی ماند پڑگئی اور ستارے منہ موڑ کر سو گئے۔
بشکریہ: اردو نیوز