بلے سے محروم PTI مخصوص نشستوں اور سینٹ سے بھی آوٹ؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور اسے بلے کے انتخابی نشان سے محروم کرنے کے فیصلے سے پارٹی کو پارلیمنٹ میں نمائندگی کے حوالے سے بہت بڑا نقصان ھو سکتا ھے ۔آئین کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں صرف رجسٹرڈ پارٹیوں اور ایک انتخابی نشان پر لڑنے والی جماعتوں کو الاٹ کی جاتی ہیں۔الیکشن کمیشن کی جانب سے بلے کا نشان نہ ملنے سے پی ٹی آئی کو صو بائی اسمبلیوں سمیت ایوان بالا اور ایوان زیریں میں خواتین اور اقلیتوں کی 227 مخصوص نشستوں پربھی نقصان ہو گا۔
اگر عدلیہ سے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں ملتا تو جنرل الیکشن کے ساتھ ساتھ مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اور سینیٹ انتخاب میں انہیں اس الیکشن کی بنیاد پر کوئی نشست نہیں ملے گی۔ موجودہ قومی اسمبلی میں جنرل نشستوں کی 266 نشستوں میں سے پنجاب کے 141، سندھ کے 61، خیبر پختونخوا کے 45 ، بلوچستان کے 16 اور اسلام آباد کے 3 حلقے ہیں۔ اسی کوٹے کے تحت آئین کے آرٹیکل 106 کے مطابق صوبائی اسمبلی کی جنرل 593 نشستوں میں سے پنجاب کی 297 ، سندھ کی 130، خیبر پختونخوا کی 115 اور بلوچستان کی 51 نشستیں آئین میں طے ہیں اور اسی کے مطابق حلقہ بندی ہوئی ہے۔
واضح رھے کہ 22 دسمبر کی شب الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے مطابق انٹراپارٹی انتخابات نہ کروانے پر پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا ھے۔چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ سنایا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں کروائے جس کے بعد پی ٹی آئی بلے کے نشان کی اہل نہیں ہے۔الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد بیرسٹر گوہرعلی چیئرمین پی ٹی آئی نہیں رہے۔پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو پارٹی کے دیرینہ رکن اکبر ایس بابر سمیت چودہ درخواست گزاروں نے چیلنج کیا تھا، الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے مبینہ نئے چیئرمین نے انٹراپارٹی الیکشن سے متعلق دستاویز جمع کروائیں، پی ٹی آئی پر عام اعتراضات یہ تھے کہ پارٹی آئین کے تحت انتخابات نہیں بلکہ خفیہ طور پر کرائے گئے، کسی بھی ممبر کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی، پی ٹی آئی کے دفتر میں کاغذات نامزدگی نہ تھے، خواہاں شخص نے بلے کا انتخابی نشان لینے کے لیے ایسا کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے پی ٹی آئی کو سوالنامہ دیا، پولیٹیکل فنانس ونگ نے نیاز اللہ نیازی کی بطور چیف الیکشن کمشنر تعیناتی پر اعتراض اٹھایا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عمر ایوب کو کسی آئینی فورم نے سیکرٹری جنرل تعینات نہیں کیا، عمر ایوب نیاز اللہ نیازی کو پارٹی چیف الیکشن کمشنر تعینات نہیں کرسکتے، پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کرانے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کو پارٹی کے سابق چیف الیکشن کمشنر جمال اکبر انصاری کا کوئی استعفیٰ نہیں ملا، جمال اکبر انصاری کو ہٹانے کی بھی کوئی دستاویزات نہیں، پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق وفاقی الیکشن کمشنر 5 سال کے لیے تعینات ہوتا ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے جمال اکبر کو عہدے سے ہٹانے کی کوئی قرارداد جمع نہیں ہوئی۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی الیکشن کمشنر کی تعیناتی میں طریقہ کار اختیار نہیں ہوا
فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے 2017 میں منتخب عہدیداران کی مدت ختم ہوچکی ہے،عمر ایوب کبھی بھی پی ٹی آئی کے آئینی سکریٹری جنرل منتخب نہیں ہوئے جبکہ اسد عمر دستیاب ریکارڈ کے مطابق پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں، پی ٹی آئی کے آئین میں کچھ ایسا نہیں کہ چیئرمین عہدیداران کی معیاد بڑھا سکتا ہے، پی ٹی آئی کے اپنے چیئرمین کی معیاد 13جون کو مکمل ہوگئی، آئینی طور پر پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے قبل چیف آرگنائزر نے چلانا تھا۔الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین نے 10جون 2022 تک کوئی الیکشن نہیں کروایا، پی ٹی آئی کا یہ الیکشن بھی آئین کے مطابق نہیں تھا، آئین کے مطابق کسی عہدیدار کے پاس عہدیداران کا تقرر یا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا اختیار نہیں تھا۔واضح رہے کہ اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے کہا تھا کہ وہ اپنے انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے۔
پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جن میں گوہر خان کو بلامقابلہ چیئرمین منتخب کیا گیا۔تاہم پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی کہ پی ٹی آئی کے الیکشن اس کے آئین کے مطابق نہیں ہوئے۔یہ کیس الیکشن کمیشن میں چلا اور پھر پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے سے روکا لیکن پھر آج یعنی جمعے کے دن فیصلے کی ہدایت کی تھی۔الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ سنایا جس میں پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا۔