عمران نے منصور شاہ سے حکومت فارغ کرنے کی امید کیوں لگا رکھی ہے ؟
معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ عمران خان نے جسٹس منصور علی شاہ کو اگلا چیف جسٹس بنوانے کے لیے سر دھڑ کی بازی اس امید پر لگائی ہوئی ہے کہ وہ آتے ہی فروری 2024 کے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیں گے اور حکومت کی چھٹی ہو جائے گی۔ بی بی سی اردو کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ عمران خان جانتے ہیں کہ آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ میں موجود ان کی مٹھی میں بند طاقت ٹوٹ جائے گی، جب کہ متوقع تبدیلوں کی صورت مطلوبہ نتائج کا حصول بھی ممکن ہے۔ اس بات کا اظہار وہ پہلے ہی کر چکے ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ کے آتے ہی الیکشن 2024 کے نتائج کالعدم قرار دیے جا سکتے ہیں یا کم از کم چار حلقے کھل جانے سے مریم نواز کی حکومت ختم ہو سکتی ہے، جب کہ ایسا نہ ہونے کی صورت ان کی رہائی کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔
عاصمہ شیرازی کے بقول اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈا پور کی صوبائی حکومت کو قابو میں لانے کےلیے کوئی آخری قدم اٹھایا جائے۔ گورنر راج کے نفاذ کا آپشن بھی موجود ہے تاہم یہ بیک فائر کر سکتا ہے۔ وزیراعلی گنڈاپور پر نااہلی کی تلوار بھی لٹک سکتی ہے، ان کے خلاف پہلے ہی اسلام آباد میں ایک پولیس والے کے قتل کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے۔ اسکے علاوہ آئین کے آرٹیکل 149 کا استعمال عمل میں آسکتا ہے، جس کے مطابق وفاق صوبوں کو مخصوص حالات میں کنٹرول کر سکتا ہے۔ گنڈاپور کے حالیہ اقدامات اور صوبے میں امن و امان کی صورت حال اس آرٹیکل کے نفاذ کے امکانات بڑھا رہی ہے۔
عاصمہ شیرازی کے مطابق کہانی کے سب کردار ایک دوسرے کے سامنے آ چکے ہیں۔ ہدایت کار، کہانی کار، ڈراما ساز اپنے اپنے کرداروں کو جان کی بازی لگانے کا کہہ چُکے ہیں۔ یوں سمجھیے اختیار کے اس کھیل میں کردار اہم اور اقتدار بے معنی ہو چکا ہے۔ بقا کی یہ لڑائی دلچسپ بھی ہے اور خطرناک بھی۔ سیاسی اور ریاستی زور آزمائی کے مقابلے میں کس کے بازو میں کتنا دم ہے یہ ہاتھوں کو بھی نہیں معلوم، پہلے آنکھ کون جھپکے گا پتلیاں بھی بے خبر۔
دراصل جھگڑا آئینی ترمیم کا نہیں بلکہ شخصیت پسندی کا ہے۔ اب کھیل شخصیات کے اردگرد کیوں گھوم رہا ہے یہ جاننا بھی ضروری ہے۔ حکومت پر الزام ہے کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسی کو توسیع دینا چاہتی ہے، جب کہ عمران خان جسٹس منصور علی شاہ کی پشت پر ہیں۔ یوں دونوں دھڑے شخصیات کے گرد ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک دھڑا اگر منصور علی شاہ کو روکنا چاہتا ہے تو دوسرا دھڑا کیوں چاہتا ہے کہ منصور علی شاہ ہی چیف جسٹس بنیں۔ شاہراہ دستور کی بڑی عمارت کے دو بڑے یعنی صدر اور وزیراعظم چیف جسٹس کی ’مدت ملازمت‘ میں توسیع کے حامی تھے تو پھر ایک شخصیت عین وقت پر دوسرے دھڑے میں کیوں شامل ہو گئی۔ یہ ’تبدیلی‘ اصولوں پر تھی یا کوئی اور ’اصول‘ کارفرما ہوئے؟ جو شخصیت باہم متفق کرنے میں کردار ادا کر رہی تھی ان سے کیا گیا وعدہ کیا ہوا، یہ کہانی بھی دلچسپ ہے۔
حکومت دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم منظور کروانے کی پوزیشن میں کیسے آئی؟
عاصمہ کے بقول آئینی پیکج کی ڈیل میں سب کچھ تھا مگر جن سے ووٹ لینا تھے ان سے ’مشورہ‘ شامل نہ تھا اور یوں وہ جج صاحبان جو گھر کے بھیدی تھے اُنہوں نے ہی لنکا ڈھا دی۔ ایک طرف فوج کے لیے آئینی عدالت اور فوجی عدالتوں کا قیام مجبوری بن چکا یے تو دوسری جانب عمران خان منہ پر ہاتھ پھیر کر ان ترامیم کو روکنے کے درپے ہیں۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اپنا پورا زور لگا رہے ہیں کہ مجوزہ ائینی ترامیم کا پیکج پارلیمنٹ سے منظور ہو جائے۔ یوں سمجھیے ڈی چوک کی طاقت کا استعمال ’ڈی ڈے‘ سے بچنے کی ایک کوشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت شنگھائی تعاون کانفرنس کے انعقاد سے پہلے اس کوشش میں ہو گی کہ آئندہ ایک ہفتے کو ضائع نہ کیا جائے۔ دوسری جانب عمران خان جانتے ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس حکومت کو دباؤ میں لانے کا ایک سُنہری موقع ہے۔ اگر ان کے جلسے جلوسوں کی وجہ سے اگر امن و امان کی صورت حال خراب ہوتی یے تو اس کانفرنس کے شرکا کی آمد خطرے میں پڑ جائے گی جسے عمران خان اپنی کامیابی تصور کریں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسے میں فوج دباؤ میں آ کر ان کے ساتھ مذاکرات شروع کر دے گی۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ برا ہو وقت کا جو ریت کی مانند ہاتھ سے پھسل رہا ہے۔ ایک جانب شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے تو دوسری جانب 25 اکتوبر کی جادوئی تاریخ قریب آرہی ہے جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ ہونی ہے اور جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کا اگلا چیف جسٹس بننا ہے۔
اکتوبر کی 25 تاریخ کے بعد کوئی ایک ستارہ ابھرے گا اور کوئی ایک ڈوبے گا اور اس سے قبل کہانی خطرناک موڑ اختیار کر سکتی ہے۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ حکومت مجوزہ آئینی ترامیم کا پیکج منظور کروانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں؟