حکومت دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم منظور کروانے کی پوزیشن میں کیسے آئی؟

منخرف اراکین اسمبلی کا ووٹ شمار کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے بارے فیصلے کے بعد حکومت جے یو آئی کے بغیر آزاد اراکین کو ساتھ ملا کر دو تہائی اکثریت کا بندوبست کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے حکومتی ذمہ داران کے مطابق ان کے پاس آئینی ترمیم کیلئے ضروری تعداد سے زیادہ ارکان دستیاب ہیں۔ آئینی ترامیم ضروری ہیں اور جلد ضروری ترامیم پارلیمنٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور کروا لی جائیں گی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ مطلوبہ دو تہائی اکثریت کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، جب وقت آئے گا تو ہمارے پاس مطلوبہ تعداد سے زیادہ ارکان ہوں گے۔‘‘ مبصرین کے مطابق حکومتی ذمہ داران کے لب و لہجے سے عیاں ہوتا ہے کہ آئینی ترامیم کسی بھی وقت منظور کروائی جا سکتی ہیں تاہم  15؍ اور 16؍ اکتوبر کو ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے فوراً بعد آئینی ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے دی نیوز نے ذرائع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ آئینی ترمیم کیلئے حکومت کے پاس 5؍ سینیٹر اور 7؍ ارکانِ اسمبلی کم ہیں۔ اس ضمن میں ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ماضی میں اسی آئینی ترمیم کیلئے حکومت کے پاس حامی ارکان کی تعداد زیادہ تھی کیونکہ ماضی میں جن ارکان اسمبلی نے اس ترمیم کیلئے حکومت کو اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا وہ اب بھاگ گئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سینیٹ میں حکومت کے پاس پانچ جبکہ قومی اسمبلی میں سات ارکان کی کمی ہے۔ تاہم اب حکومتی ذمہ داران نے ان خبر کی تردید کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ حکومت کے پاس آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے دوتہائی سے زیادہ اراکین کی حمایت موجود ہے۔حکومتی ذرائع نے اپوزیشن کے اس دعوے کی سختی سے تردید کی ہے کہ آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے حکومتی اتحاد کے پاس 5؍ سینیٹرز اور 7؍ ارکانِ اسمبلی کم ہیں۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کی حمایت کے بغیر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ حکومت 25 اکتوبر سے پہلے اپنے مجوزہ آئینی ترمیم کے پیکج کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے اس کی منظوری حاصل کرنے کی پوزیشن میں آ چکی یے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے وہ 7 اراکین حکومتی کو اپنی حمایت کا یقین دلا چکے ہیں جنہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت کے سرٹیفیکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائے۔ اگر یہ اراکین آئینی ترمیمی پیکج کے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں تو ان پر فلور کراسنگ کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کی جانب سے حال ہی میں ارٹیکل 63 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اگر تحریک انصاف یا کسی اور جماعت کا کوئی رکن اسمبلی ترمیمی پیکج کے حق میں ووٹ ڈالتا ہے تو وہ نااہلی کے خطرے کا شکار تو ہو جائے گا لیکن اس سے پہلے اس کا ووٹ شمار ہو جائے گا اور یوں حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گی۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسے اراکین اسمبلی اور سینیٹ کو حکومتی اتحاد دوبارہ سے منتخب کروا لے گا۔

دوسری جانب ذرائع کا دعوی ہے کہ آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس اختتام ہفتہ طلب کئے جارہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایوان صدر میں آل پارٹیز کانفرنس سے پہلے صدر آصف زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیر اعظم سینیٹر اسحٰق ڈار اور بلاول بھٹو زرداری کی موجودگی میں نواز شریف سے مولانا فضل الرحمٰن کی انتہائی اہم ملاقات میں آئینی ترامیم کے حوالے سے وسیع تر اتفاق رائے، آئینی عدالت کے سلسلے میں مفاہمت ہو گئی ہے،جس کےببعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے الگ الگ اجلاس اختتام ہفتہ طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا یےاس اصولی فیصلے کی رو سے توقع ہے کہ جمعہ کے روز اجلاس ہونگے جو ضرورت کے تحت ہفتے کو بھی منعقد ہوسکیں گے اس سلسلے میں حکمت عملی پارلیمانی گروپس کے اجلاس میں وضع کی جائے گی جو عدالتی اصلاحات کے لئے درکار آئینی ترامیم کے حتمی خدوخال کی منظوری دے گا۔ذرائع کے مطابق آئین کی ترمیمی مسودے سے ان تجاویز کو حذف کردیا گیا ہے جو وجہ نزاع بن کر رہ گئی تھیں اور جن کی وجہ سے ترامیم کی منظوری میں تاخیر و اقع ہورہی تھی۔ ذرائع کے مطابق حکومت اور جے یو ائی کے مابین مفاہمت کی توثیق جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی کراچی سے واپسی پر ہوگی

یاد رہے کہ اس وقت قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد میں مسلم لیگ ن کے 110 ووٹ ہیں، پیپلز پارٹی کے 68، متحدہ قومی موومنٹ کے 22، استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق دونوں کے پاس چار چار ووٹ ہیں، اس کے علاوہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا ایک ایک رکن قومی اسمبلی میں موجود ہے۔ دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کے 80 ووٹ ہیں، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد  ارکان اسمبلی ہیں، جمیعت علمائے اسلام  کے 8، بلوچستان نیشنل پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور   پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن موجود ہے۔ آزاد حیثیت سے منتخب ہو کر مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ قاف میں شمولیت اختیار کرنے والے ایک ایک رکن بھی اپوزیشن نشستوں پر بیٹھے ہیں۔

اسی طرح سینیٹ میں حکومتی بنچز پر پیپلزپارٹی کے 24 اراکین موجود ہیں، اسکے علاوہ مسلم لیگ نواز کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3 ارکان موجود ہیں۔ حکومتی بنچز پر 2 آزاد سینیٹرز موجود ہیں جب کہ 2 انڈیپنڈنٹ اراکین موجود ہیں۔ یوں ایوان بالا میں حکومتی اتحاد کے اراکین کی مجموعی تعداد 54  بنتی ہے، ایسے میں آئینی ترمیم پاس کروانے کے لیے حکومت کو سینیٹ میں مزید 9 ووٹ درکار  ہیں۔ سینیٹ میں اپوزیشن بنچز  پر  پی ٹی آئی کے 17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل ، مجلس وحدت المسلمین ، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک رکن ہے۔ اپوزیشن بنچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی ہیں۔ اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بنچز پر 31 سینیٹرز  موجود ہیں۔

لہذا اگر نمبرز گیم کی بات کی جائے تو حکومت کو دو تہائی اکثریت لینے کے لیے قومی اسمبلی میں سات اراکین کی حمایت درکار ہے جبکہ سینٹ میں اسے پانچ اراکین کی حمایت چاہیے۔ دو تہائی اکثریت کے لیے حکومت نے پہلے جس فارمولے پر کام کیا تھا اسکے مطابق مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام کے ووٹ حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ جے یو آئی ایف کے قومی اسمبلی میں 8 اراکین ہیں جنکی حمایت مل جانے کی صورت میں حکومتی اتحاد کا نمبر 220 تک پہنچ جائے گا جبکہ باقی چار مطلوبہ ووٹ آزاد اراکین کے لیے جا سکتے ہیں، اسی طرح سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لیے حکومتی اتحاد نے جے یو آئی پر ہی فوکس کر رکھا تھا جس کے پانچ اراکین کی حمایت ملنے کی بعد اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہو سکتی تھی۔ تاہم مولانا کی جانب سے صوبہ خیبر پختون خواہ کی گورنرشپ اور دو وفاقی وزارتیں دینے پر اصرار کے بعد اتحادی حکومت نے آئینی ترمیمی پیکج جے یو ائی کی مدد کے بغیر ہی ازاد اراکین اور تحریک انصاف کے کچھ لوگوں کی مدد سے منظور کروانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کسی بھی صورت فیصل کریم کنڈی کی جگہ مولانا فضل الرحمن کے رشتہ دار حاجی غلام علی کو گورنر خیبر پختون خوا بنانے پر تیار نہیں۔ ایسے میں مولانا بھی اتحادی حکومت کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ تاہم اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اگر حکومت مولانا کے بغیر ہی آئینی ترامیم کا پیکج پاس کروانے کی پوزیشن میں آ جائے تو جے یو آئی سربراہ بھی آخری لمحے اس کی حمایت کر دیں چونکہ موصوف 5 برس تک اقتدار سے باہر رہنے کا رسک نہیں لے سکتے۔۔

Back to top button