عمران کی دھمکیاں، ان کے غصے اور خوف کا اظہار

معرف صحافی اور تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا یے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اقتدار سے بیدخلی پر مذید خطرناک ہو جانے کی دھمکی دراصل انکے اندرونی اضطراب اور کمزوری کا اظہار ہے۔ دراصل وہ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑتے نظر آ رہے ہیں، لیکن وہ ہار ماننے کے لئے تیار نہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں زاہد حسین کہتے ہیں کہ ابھی عمران خان مکمل ڈھیر نہیں ہوئے لیکن چند حالیہ واقعات انکی حکومت پر کئی سوالات کھڑے کر چکے ہیں۔ حالیہ دنوں وزیراعظم کا غصے میں یوں پھٹ پڑنا پہلی بار نہیں ہے لیکن براہ راست نشر ہونے والے ٹی وی سیشن میں یوں آواز بلند کرنا اور دھمکی آمیز لہجے میں خطاب کرنا ایسے شخص سے متوقع نہیں تھا کہ صورتحال جس کے قابو میں ہو۔ ان کا دھمکانے والا انداز ان کے اندر موجود گہری بے چینی اور کمزور پڑنے کے احساس کو ظاہر کر رہا تھا۔

انہوں نہ اپنا غصہ نہ صرف حزب اختلاف کے خلاف نکالا، بلکہ عدلیہ اور میڈیا کو بھی نشانہ بنایا اور وہ ان کی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے ہر غلط امر کے ذمہ دار قرار دیے گئے۔ وہ ایک ہاری ہوئی جنگ لڑتے نظر آئے، اگرچہ ہار ماننے کے لئے تیار وہ اب بھی نہیں۔ گو کہ ان کا انہدام ہونا ابھی ٹھہرا نہیں، لیکن واقعات اب انکی ناکامی کے واضح اشارے دے رہے ہیں۔

وزیر اعظم کی جانب سے اور بھی زیادہ خطرناک ہوجانے کی وارننگ بارے زاہد حسین پوچھتے ہیں کہ یہ دھمکی کسے دی گئی، اس بارے میں کچھ زیادہ تیقن سے نہیں کہا جا سکتا لیکن وزیر اعظم کے الفاظ نے انکی حکومت کی کم ہوتی طاقت کے تاثر کو مزید گہرا ضرور کر دیا ہے۔ بقول زاہد، عمران بدقسمتی سے اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ انھوں نے کبھی کوئی غلط فیصلے بھی کیے ہیں، اور اسی لئے وہ ملک کو درپیش سیاسی و معاشی مشکلات کا ذمہ دار گذشتہ حکومتوں یا مافیاز کو قرار دیتے ہیں۔

کرپشن کے خلاف وزیراعظم کی مہم دھڑام سے گر جانے کے بعد عمران خان کی فرسٹریشن اور بھی ذیادہ بڑھتی نظر آتی ہے جس کا نشانہ بنیادی طور پر حزب اختلاف کے قائدین رہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اپوزیشن رہنماؤں کے احتساب میں ناکامی کا ذمہ دار انہوں نے پاکستانی عدلیہ اور میڈیا کو ٹھہرایا۔

زاہد حسین کے بقول، یہ بات اب عیاں ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ‘تبدیلی’ لانے کے وعدوں میں ناکامی کے سبب عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی سے وہ شدید دبائو میں ہیں۔ مہنگائی کا محرک کلیتہً بیرونی وجوہات کو قرار دینا لوگوں کو مطمئن نہیں کر پا رہا۔

عالمی محرکات کا انکار نہیں لیکن گورننس کی ناکامی اور غلط پالیسیاں بھی ملک میں بنیادی ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کا سبب رہی ہیں۔ اس کا ذمہ دار ‘مافیاز’ اور ذخیرہ اندوزوں کو ٹھہرانا ان لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکتا جو غذائی قیمتوں سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔

اب کپتان خودکش حملہ کرے تو ہی موجودہ سسٹم گرے گا

سیاسی حمایت کے حوالے سے حکمراں جماعت کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ خاص کر خیبر پختونخوا کے ضمنی انتخابات میں ہونے والا ‘اپ سیٹ’ پارٹی کی سیاسی ‘بیس’ کمزور پڑ جانے کا ثبوت ہے۔ اس سے پارٹی کی صفوں میں ویسع تر ہوتی خلیج بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ اسکے علاوہ بحرانی کیفیت کے دوران پارٹی کی تنظیم نو کے اعلان نے کنفیوژن میں اور بھی اضافہ کیا ہے، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جبکہ حزب اختلاف نے حکومت کو گرانے کی مہم تیز کی ہوئی ہے۔

زاہد کے مطابق حکومت کی پریشانی بڑھانے کا ایک سبب سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور حزب اختلاف کے گروپس کے درمیان ‘ڈیل’ کی افواہیں بھی ہیں، جس سے وزیر اعظم کی پریشانی بظاہر دوچند ہو چکی ہے۔ ان کی بے چینی ان افواہوں کی جانب اشارے سے ظاہر تھی۔ یہ امکان ایسی حکومت کے لئے کافی پریشان کن ہے کہ جس کا اپنی بقا کے لئے زیادہ تر انحصار اسٹیبلشمنٹ پر رہا ہو۔ لیکن ملکی سیاست میں ایسی ڈیلز انہونی بھی نہیں رہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے اسلام آباد مارچ کے اعلان نے ان افواہوں کو تقویت دی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اور حکومت کے درمیان فاصلہ پیدا کر لیا ہے۔

یہ عمل ‘ہائبرڈ پاور’ کے انتظام کے کمزور پڑنے کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی تحیر کی بات نہیں کہ وزیر اعظم کا یہ بیان کہ حکومت سے باہر وہ ‘زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں’، بہت سوں کی جانب سے اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی کے لئے ایک دھمکی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن ایسا مؤقف رکھنا خود کو کمزور بھی ظاہر کر سکتا ہے اور ایک کمزور ‘اتحاد’ کو آشکار بھی۔

زاہد حسین کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کی حاکمانہ اور غیر معقول روش ان کی حکومت کو اپوزیشن کی مہم سے بھی زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔انکا کہنا ہے کہ عمران خان کا ریاست مدینہ کا مفہوم اتنا ہی غیر واضح ہے جتنی کہ انکی سیاست ناقابل فہم ہے۔ لہذا حالیہ دنوں میں ان کا ایک نشری خطاب میں پھٹ پڑنا اور خطرناک ہو جانے کی دھمکی دینا ملکی تاریخ کے اس نازک موڑ پر ان کی ملک چلانے کی صلاحیت پر بڑے بڑے سوالات کھڑے کر رہا ہے۔

Back to top button