لانگ مارچ کے بعد دھرنا نہ دینے پرعمران کی آئیں، بائیں، شائیں

اپنے نام نہاد لانگ مارچ کے بعد اسلام آباد میں دھرنا دیئے بغیر بنی گالا جا کر سو جانے والے عمران خان اپنے حامیوں کی جانب سے تنقید کی زد میں آنے کے بعد اب وضاحتیں دیتے ہوئے آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے پا رہے۔ خود پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے اسٹیبلشمنٹ سے کسی ڈیل کے تحت آزادی مارچ ختم نہیں کیا۔ موصوف نے فرمایا کہ میں نے حکومت کو 6 روز کی ڈیڈ لائن دی ہے جس کے بعد ایک مرتبہ پھر پوری قوت سے سڑکوں پر نکلوں گا اور اسے فوری الیکشن کے اعلان پر مجبور کر دوں گا۔

جب عمران سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے لانگ مارچ ناکام ہونے اور اسلام آباد میں بڑا مجمع اکٹھا نہ کر سکنے کے بعد دھرنا نہ دینے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ عمران نے کہا کہ ہم پر الزام لگ رہا تھا کہ ہم انتشار پھیلانے کے لیے جا رہے ہیں، کیا کوئی اپنے بچوں و عورتوں کو لے انتشار کرنے جاتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر مجھے اپنی قوم کا خیال نہ ہوتا اور میں وہاں بیٹھ جاتا تو بہت خون خرابہ ہونا تھا، نفرتیں بڑھنی تھیں لیکن پولیس بھی ہماری ہے اس لیے ہم نے اپنے ملک کی بہتری کی خاطر فیصلہ کیا۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اگر وہ چھ روز بعد بھی یہی کچھ کرنے جا رہے ہیں تو 25 مئی کو واپس کیوں چلے گئے۔

2018 میں اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے والے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا میری اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے۔ تاہم جس سوال کا جواب ابھی تک نہیں مل سکا وہ یہ ہے کہ عمران خان اپنے اعلان کے مطابق اسلام آباد میں دھرنا دئیے بغیر گھر کیوں چلے گئے؟ اسلام آباد کا رُخ کرنے سے قبل عمران خان نے متعدد مرتبہ واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیا تھا کہ تحریک انصاف کا ’حقیقی آزادی مارچ‘ اس وقت تک وفاقی دارالحکومت میں موجود رہے گا جب تک اسمبلیاں تحلیل نہیں کر دی جاتیں اور آئندہ عام انتخابات کا اعلان نہیں کر دیا جاتا۔

تاہم ڈی چوک میں جمعرات کی علی الصبح جب انھوں نے اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے انھیں اپنے نئے فیصلے کی بابت آگاہ کیا تو یہ اعلان ناصرف سیاسی پارٹیوں بلکہ تجزیہ کاروں کے لیے بھی حیران کُن تھا۔ عمران خان کا یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پر یہ سوال گردش کرنے لگا کہ عمران خان کے دھرنا نہ دینے کے اعلان کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں؟ اور یہ کہ تحریک انصاف کی آئندہ حکمت عملی کیا ہو گی اور کیا عمران خان چھ دن بعد دوبارہ ایسا ہی پاور شو کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے؟

اسلام آباد میں دھرنا نہ دینے کے فیصلے کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے کپتان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری کا کہنا ہے کہ عمران کو جب یہ نظر آیا کہ انکے ساتھی فوج اور پولیس کے ساتھ لڑ جائیں گے، بھائی بھائی کو مارے گا۔۔ جانیں جائیں گی اور اس کا فائدہ صرف شریف اور زرداری خاندان کو ہو گا تو انہوں نے دھرنا نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ایک بڑے لیڈر کا قوم کے لیے بہت بڑا فیصلہ تھا۔ نظر آنے والے نقصان کو دیکھتے ہوئے انھوں نے چھ دن بعد کا ٹائم دیا ہے اور اگر اس دوران انتخابات کی تاریخ نہیں دی گئی تو تحریک انصاف پورے ملک میں لاک ڈاؤن کرے گی اور بھرپور احتجاج ہوگا۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ جو خون خرابہ عمران خان اب نہیں کرنا چاہتے وہ خون خرابہ 6 دن بعد کیوں کرنا چاہیں گے؟

زلفی بخاری نے اس سوال کا جواب دینے سے معذرت کی کہ کیا اس فیصلے کے پیچھے کچھ پس پردہ روابط بھی کارفرما تھے؟ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’میرا نہیں خیال کہ ہمیں ہر چیز میں اسٹیبلشمنٹ کو انوالو کرناچاہیے۔ انھوں نے کل بڑا نیوٹرل کردار ادا کیا۔ فوج صرف آرٹیکل 245 کے تحت گورنمنٹ اور پبلک پراپرٹی کی حفاظت کے لیے بلائی گئی تھی اور انھوں نے اس کے علاوہ کہیں مداخلت نہیں کی۔‘ اگر چھ دن میں الیکشن کی تاریخ نہیں ملتی تو کیا عمران خان ایک بڑا پاور شو کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے؟ اس کے جواب میں زلفی بخاری نے کہا کہ ’بالکل ہوں گے۔ مگر اس دفعہ ہم لاہور، کراچی اور اسلام آباد کا لاک ڈاؤن کریں گے، ہم ان شہروں کا لاک ڈاؤن کریں گے جن پر ملکی معیشت کا انحصار ہے اور جب معیشت نہیں چل سکے گی تو تب ہی حکومتی اتحاد کو صحیح معنوں میں سُنائی دے گا۔‘

سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق عمران خان گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ سیاست سیکھ رہے ہیں۔ ’ماضی میں ہم نے دیکھا کہ خان صاحب اپنی بات پر اڑ جاتے تھے اور ایسے میں ہم یہ اندازہ کر سکتے تھے کہ وہ کیا کریں گے، لیکن گذشتہ روز انھوں نے اپنا مختلف فیصلہ لیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بیشک عمران خان کا بیان تھا کہ میں تاریخ لے کر جاؤں گا لیکن ظاہر ہے کہ فیس سیونگ ہر جماعت کو چاہیے ان حالات میں، اور ہمارے پاس یہی اطلاعات ہیں کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت چل رہی ہے اور امید ہے کہ کوئی اتفاق رائے سامنے آئے گا۔‘

تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی کے خیال میں اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ’پی ٹی آئی کی حکومت سے بلواسطہ بات چیت چل رہی ہے اور رابطے بھی موجود ہیں مگر وہ اپنی حکمتِ عملی میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جس وقت پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کی تاریخِ کا اعلان کیا، اس وقت بھی کہا جا رہا تھا کہ رابطے چل رہے ہیں اور حکومت انتخابات کی تاریخ دے سکتی ہے۔چند روز انتظار کریں۔ لیکن عمران خان نے انتظار نہیں کیا اور صرف مارچ کی نہیں بلکہ دھرنے کی بھی کال دے دی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ جب تک تاریخ کا اعلان نہیں ہو گا وہ وہیں ڈی چوک بیٹھیں گے۔‘ تاہم اب عمران خان نے پہلی مرتبہ خود حکومت کے ساتھ الیکشن کی تاریخ پر مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے جسے وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے سختی سے رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کا اعلان موجودہ حکومت کی معیاد پوری ہونے پر ہی کیا جائے گا۔

اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر نے کہا کہ ’عمران خان کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ وہ خود کو بند گلی میں لے کر چلے گئے تھے۔ وہ 20 لاکھ سے زیادہ لوگ لانے اور ملک کا نظام درہم برہم کرنے کی باتیں کر رہے تھے مگر یہ چیزیں اتنی آسان نہیں ہوتیں۔ چاہے آپ کے سپورٹر جتنے بھی مایوس ہوں، چاہے وہ 20 ہزار ہوں یا 20 لاکھ۔۔۔ آپ جتنے مرضی بڑے جتھے لے آئیں، یہ طریقہ کار نہ ماضی میں کامیاب رہا نہ آگے کامیاب ہو گا۔‘ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ کیا عمران اب بھی کوئی بڑا پاور شو کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے؟ سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور ایک ہی کام بار بار کرنے سے طاقت کم ہوتی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگلا پاور شو 25 مئی والے سے بڑا نہیں ہو سکتا۔ مطلوبہ تعداد میں لوگوں کو اکٹھا نہ ہونے دینے کے لیے انتظامیہ نے جو انتظامات اور کارروائیاں کی ہیں، ان پر آپ جتنی مرضی تنقید کر لیں مگر اس سے حکومت میں اعتماد پیدا ہوا ہے اور اگلی مرتبہ حکومت زیادہ پُراعتماد ہو گی، مگر خان صاحب کے کارکن کنفیوز ہوں گے۔ لیگی رہنما محمد زبیر کہتے ہیں کہ ’چھ دن کے بعد کچھ بھی نہیں ہونے والا۔ اس مرتبہ بھی توقعات اور دعوؤں کے برعکس لوگ نہیں آئے اور نہ چھ دن بعد آئیں گے اور اگلی مرتبہ حکومت کو کچھ کرنے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ نمبرز ہیں ہی نہیں اور نہ ہوں گے۔‘

شاہ رخ کے بیٹے آریان کو منشیات کیس میں کلین چِٹ مل گئی

لانگ مارچ شروع ہونے سے لے کر اس کے اچانک اختتام تک کیا اس سارے عمل کے دوران کسی پسِ پردہ قوت کا کردار رہا ہے؟ اس سوال پر سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’پسِ پردہ قوتیں پاکستان کا حصہ ہیں اور ہر معاملے پر ان کی نظر ہوتی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ بالکل لاتعلق ہو کر بیٹھ جائیں، ملک کے بڑے فیصلوں میں انھیں شامل کرنا پڑے گا اور جب لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بنے گی تب بھی انھیں بلانا ہی پڑے گا۔‘ تاہم سہیل وڑائچ کے خیال میں ’الیکشن کے معاملے میں ان کی ’اِن پٹ‘ شاید نہیں لی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی نے بھی رابطوں کی کوشش تو ہو گی مگر وہ کامیاب ہوئے یا نہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘

Back to top button