کروناسے پاکستان میں ہر گھنٹے میں 4 اموات کا انکشاف

یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث ملک میں ہر گھنٹے میں 4 لوگ مر رہے ہیں۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اکرم نےکہا کہ اس وقت ملک میں کورونا وائرس کی صورتِ حال خطرناک اور تشویش ناک ہے، گزشتہ روز 100 افراد کورونا وائرس کے باعث ایک دن میں انتقال کرگئے جو سیاہ دن ہے، لوگوں کی زندگیاں بچانا اور زندگی کو نارمل کرنا ہمارا مقصد ہے۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس پھیپھڑوں میں جنگ برپا کر دیتا ہے جس سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور 100 لوگوں کو وائرس ہو تو ان میں سے 30 لوگوں کو علامات ظاہر نہیں ہوتیں جس سے انہیں وائرس کا پتا ہی نہیں ہوا۔
ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد کورونا پیسیو امیونائزیشن ہے، پلازمہ کے لیے اینٹی باڈیز کا ٹیسٹ کر رہے ہیں، 100 میں سے 5 فیصد لوگوں کو اسپتال جانا پڑے گا اور انہیں وینٹی لیٹر بھی لگ سکتا ہے، وینٹی لیٹر دو دھاری تلوار ہے لیکن اس کا نقصان زیادہ ہے، وینٹی لیٹر سے پھیپھڑوں کو نقصان ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔انہوں نےمزید کہا کہ پاکستان میں وینٹی لیٹرز سے کورونا وائرس کے مریضوں کی 99 فیصد اموات ہو رہی ہیں، ایک شخص کا انتقال ہوتا ہے تو پورے آئی سی یو والے پریشان ہو جاتے ہیں، 65 فیصد طبی عملے کی خواتین پر ان کے خاندان کی طرف سے کام نہ کرنے کا پریشر ہے۔دوسری جانب ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی نے پیسیوامیونائزیشن سے کورونا کے علاج کے لیے لوگوں سے پلازمہ عطیہ کرنےکی اپیل کی ہے۔ہیماٹالوجسٹ اور ٹرانسپلانٹ فزیشن ڈاکٹر طاہر شمسی نے کورنا سے صحت یاب مریضوں سے پلازمہ عطیہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ پلازما دینے والے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور پلازمہ لگنے سے 80فیصد مریض صحتیاب ہو جاتے ہیں۔
لاہور میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم، ڈاکٹر طاہر شمسی اور سیل بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر فریدون نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پلازمہ تھیراپی اور ایمیونوگلوبیلن جی کے حوالے سے گفتگو کی۔ ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ ہم کورونا پیسیو ایمونائزیشن گروپ میں ایمیونوگلوبیلن جی(آئی جی جی) بنا کر رکھ لی ہے اور پاکستان اور اس خطے میں سب سے پہلے آئی جی جی شروع کرنے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تجزیے کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ آئی جی جی محفوظ ہے یہ منفی 80ڈگری پر ہمارے فریزر میں بن کر رکھ ہوئی ہے اور آج ہم پہلے مریض کو یہ لگا کر آپ کو اس حوالے سے تفصیلات بتائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اور کل ہماری تاریخ کا سیاہ دن تھا کیوں کہ اس وائرس سے 100 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں یعنی ہر گھنٹے میں چار جانیں گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر 100 لوگوں میں یہ وائرس داخل ہوتا ہے تو 30 کو تو پتہ بھی نہیں کہ وائرس ان میں داخل ہو گیا ہے کیونکہ ان میں کوئی علامات بھی نہیں ہوتیں لہٰذا وہ آگے پھیلاتے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اینٹی باڈیز کا ٹیسٹ کرتے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ جسم میں قوت مدافعت کتنی ہے کیونکہ جب کسی سے پلازمہ لے رہے ہوتے ہیں تو ہم پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس میں اتنی قوت مدافعت ہے کہ ہم اس میں سے لے کر کسی کو لگا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مریض کا جس سے بھی علاج کرارہے ہیں تو کوشش کریں کہ وینٹی لیٹر بالکل آخری آپشن ہو کیوں کہ وینٹی لیٹر دو دھاری تلوار ہے، یہ فائدہ بھی دے سکتی ہے لیکن یہ نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں وینٹی لیٹرز کی بحث چھوڑ دینی چاہیے کیوں کہ وینٹی لیٹرز ہم ابھی 10ہزار باہر سے منگوا سکتے ہیں لیکن انہیں آپریٹ کون کرے گا، ہمارے پاس پہلے سے ہی ملک میں طبی عملے کی کمی ہے اور ہمارے 37 افراد اس وائرس سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہر شمسی نے کہا کہ پیسو ایمونائزیشن گروپ قائم ہوا اور اس گروپ کے زیر اہتمام پلازمہ کے ذریعے لوگوں کی جانیں بچانے کا کام ہوا ہے اور اب تک 200 سے زائد افراد کو پورے ملک میں پلازمہ لگایا جا چکا ہے جو عالمی سطح پر منظور شدہ طبی عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا میں جو دوائیں استعمال ہو رہی ہیں ان سب میں یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ اگر یہ ایک مرتبہ مریض سنگین بیماری کاشکار ہو جائے تو مریض کی صحت بہتر کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پلازمہ ان افراد کے لیے موثر ہے جو وینٹی لیٹر پر نہ گئے ہوں کیوں کہ وینٹی لیٹر ویسے ہی اچھی چیز نہیں ہے اور کورونا کے 80-90فیصد مریض وینٹی لیٹر پر جانے کے بعد زندہ نہیں بچتے۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہی رجحان ہے حالانکہ ان کے آئی سی یو ہم سے کہیں زیادہ ہیں اور ہم سے کہیں زیادہ ماہر ان کا عملہ ہے لیکن وہ بھی اس سے نمٹ نہیں پارہے۔ سینئر ڈاکٹر نے مزید کہا کہ آج سے ایمیونوگلوبیلن جی کا ٹرائل شروع ہو رہا ہے، اس میں مریض کا انتخاب سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہو گا۔ ڈاکٹر طاہر شمسی نے کہا کہ پلازمہ کی دستیابی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے کیوں کہ ہر مریض کے گھر والے چاہ رہے ہیں کہ کسی طریقے سے پلازمہ مل جائے، پلازمہ جمع کرنے کی سہولتیں تو کراچی شہر میں کئی ہیں لیکن پلازمہ دینے والے شاید ہماری بات سمجھ نہیں پا رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پلازمہ دینے والے ہماری اپیل کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے لیکن ہمیں عید کے بعد سے روزانہ پلازمہ کےلیے 300 کے حساب سے درخواستیں موصول ہورہی ہیں لیکن بڑی تعداد میں عطیہ کرنے والے نہ آنے کی وجہ سے ہم مہیا نہیں کر پارہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کورونا کے وہ مریض جو وینٹی لیٹر پر نہیں گئے تھے، ان کو جب پلازمہ لگا تو 80 فیصد مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں اور پلازمہ لگنے کے سات آٹھ دن بعد مزید پیچیدگیاں نہ آنے کی صورت میں وہ گھر جانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور ان کورونا ٹیسٹ بھی منفی آ جاتا ہے۔ ڈاکٹر شمسی نے واضح کیا کہ پلازمہ دینے والے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور کورونا ٹیسٹ منفی آنے کے بعد کم از کم دو ہفتے کے بعد جسم میں اتنی قوت مدافعت ہو جاتی ہے کہ ہر ہفتے پلازمہ دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک شخص کی جانب سے دیے گئے پلازمہ سے دو افراد کی جانیں بچ رہی ہیں یعنی اگر آپ نے تین مرتبہ پلازمہ دیا تو چھ لوگوں کی جان بچے گی اور کسی انسان کی جان بچانا انتہائی نیکی کا کام ہے۔ انہوں نے کورونا سے صحت یاب ہونے والے مریضوں سے اپیل کی کہ وہ پلازمہ دینے کےلیے آگے آئیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button