بھارت نے 62سال میں پہلی بار سندھ طاس معاہدہ کیسے معطل کیا؟

پہلگام واقعہ کی آڑ میں بھارت کی جانب سےآبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کے اعلان کو انتہائی غیر معمولی اقدام قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ یہ پہلا موقع ہے جب بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے حالانکہ اس سے قبل انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی 1965، 1971 اور 1999 کی جنگوں کے دوران بھی یہ معاہدہ قائم رکھا گیا تھا۔ قانونی ماہرین کے مطابق پہلگام فالس فلیگ کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر سندھ طاس معاہدے کو غیر قانونی طور پر ختم کرنے کا اعلان کر کے ہندوستان نے اپنا غیر ذمہ دارانہ اور مذموم چہرہ دنیا کو دکھا دیا حالانکہ بھارت کسی بھی طرح قانونی طور پر اس معاہدے کو یک طرفہ ختم نہیں کر سکتا۔ماہرین کے مطابق مودی سرکار کی یہ مذموم حرکت 1960 کے سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے کیونکہ معاہدے کی شق نمبر12۔ (4) کے تحت سندھ طاس معاہدہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک دونوں ملک تحریری طور پر متفق نہ ہوں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان دریائوں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟ بھارت اور پاکستان دونوں اس معاہدے کی پاسداری کے کیوں پابند ہیں؟ کیا بھارت کی سندھ طاس معاہدے سے روگردانی ممکن ہے؟
تجزیہ کاروں کے مطابق تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور بھارت میں پانی کی تقسیم سے متعلق تنازع کے بعد 19 ستمبر 1960 کو ورلڈ بینک کی ثالثی میں انکے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھاجسے سندھ طاس معاہدہ کہا جاتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں انڈس واٹر ٹریٹی یعنی سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960 کو عمل میں آیا تھا۔اس وقت انڈیا کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان جبکہ مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول انڈیا کے ہاتھ میں دیا گیا تھا ،دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس واٹر کمیشن بھی قائم کیا تھا ۔
مبصرین کے مطابق دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔ ‘ سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا ہے۔انڈیا کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اسے ان دریاوں کا پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔بھارت نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ان دریاوں کے بہاوَ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا ۔جبکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول انڈیا کے ہاتھ میں دیا گیا ہے۔ انڈیا کو ان دریاؤں پر پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
تاہم اب بھارت نے یکطرفہ قدم اٹھاتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے حالانکہ قانونی طور پر بھارت یکطرفہ معاہدہ معطل یا ختم نہیں کر سکتا، سندھ طاس معاہدے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کیلئے دونوں مملاک کی رضامندی ناگزیر ہے۔ بھارت کی جانب سے معاہدے کی معطلی پر پاکستان ثالثی عدالت جانےکاحق رکھتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے مابین دریاوں کی تقسیم کا معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا۔
دوسری جانب مبصرین کا ماننا ہے کہ بھارت کی پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں پاکستان کے خلاف سازش کھل کر سامنے آ گئی ہے بغیر کسی ثبوت کے پہلگام واقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے کر سندھ طاقس معاہدے کی معطلی ایک سازش کا حصہ معلوم ہوتا ہے حالانکہ پہلگام واقعہ بھارت کی سکیورٹی ایجنسیز کی ناکامی کا غماز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت پہلے بھی اس طرح کے اڑی اور پلوامہ فالس فلیگ آپریشنز کرتا رہا ہے اور پہلگام واقعے کے فوراً بعد بغیر وقت ضائع کیے بھارت کے میڈیا اور سیاستدانوں نے پاکستان پر الزامات لگانا شروع کر دیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے گزشتہ کچھ عرصے کے بیانات کو دیکھا جائے تو وہ کافی جارحانہ نظر آتے ہیں جن میں وہ آزاد جموں و کشمیر لینے کی بات کرتے ہیں، تو یہ ساری چیزیں اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا جس میں ان کی داخلی سیاسی مجبوریاں بھی حائل ہو سکتی ہیں۔ بھارت کو دکھانا تھا کہ وہ پاکستان کے خلاف کیا کچھ کرنے جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بہرحال اس ساری صورتحال سے امن کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں کیونکہ دونوں ایٹمی قوتیں ہیں۔
پاکستان کے سابق سفیر مسعود خالد کے مطابق کچھ عرصہ قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ دہشتگردی جاری رہے گی تو پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بیان بھارتی حکومت کی سوچ کا آئینہ دار تھا۔مسعود احمد نے کہا کہ جہاں تک سندھ طاس معاہدے کا تعلق ہے یہ معاہدہ ورلڈ بینک کی نگرانی میں طے ہوا تھا اور یکطرفہ طور پر اس کو معطل کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔سابق سفیر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں لیکن یہ معاہدہ کبھی معطل نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان ساری باتوں کو اگر بھارتی وزیراعظم کے بیان سے جوڑ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا۔