انڈیا کا بلوچ دہشتگردوں کیلئے 280 ارب روپے سالانہ فنڈنگ کا انکشاف

انڈیا ہر برس بلوچستان لبریشن آرمی کو پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے ایک ارب ڈالرز یعنی 280 ارب روپے کی فنڈنگ دیتا ہے جو کہ اسلحے اور ٹریننگ کے علاوہ ہے‘ اسی طرح بھارت کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کو بھی بھاری رقم اور ٹریننگ دی جارہی ہے جبکہ انہیں اسلحہ افغان طالبان کی حکومت سے مل جاتا ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی "را” ان دونوں دہشت گرد تنظیموں کو سیٹلائٹ سپورٹ دینے کے علاوہ انکے ساتھ پاکستان حساس علاقوں کے نقشے اور دیگر تفصیلات بھی شیئر کرتی ہے۔

معروف اینکر پرسن اور صحافی جاوید چودھری اپنے تازہ تجزیے میں یہ حقائق بیان کرتے ہوئے کہتے کہ آپ خود سوچیے بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان اور بلوچستان کے پہاڑوں میں بیٹھے ہیں اور یہ بہت زیادہ پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ نہیں ہیں، لہٰذا انہوں نے جعفر ایکسپریس پر اتنے منظم حملے کی پلاننگ کس طرح کی ہو گی؟ انھیں کیسے پتا چلتا ہے درہ بولان کی کس پوزیشن پر ٹرین کا سینٹرل سسٹم سے رابطہ ختم جاتا ہے یا موبائل فون سگنلز مکمل طور پر ختم ہو جاتے ہیں اور کون کون سا ایسا پوائنٹ ہے جہاں فوج اور سیکیورٹی ادارے فوری طور پر نہیں پہنچ سکتے اور آج ٹرین کے ذریعے کتنے فوجی چھٹیوں پر جا رہے ہیں‘ انہیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ فوج ریسکیو آپریشن کے دوران کہاں پہنچ چکی ہے اور انہیں کس وقت ٹرین سے نکل کر پہاڑوں میں کس مقام پر پناہ لینی ہے؟ یہ تمام معلومات کسی ملک کی سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کے بغیر لینا ممکن نہیں اور اس کے پیچھے را اور بھارت ہے ورنہ ٹی ٹی پی کے ساڑھے سات ہزار اور بی ایل اے کے 16 ہزار لوگ پاکستان جیسی ایٹمی طاقت کو کیسے آگے لگا سکتے ہیں۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ اس وقت سینکڑوں بلوچ نوجوان را کی فنڈنگ سے دہشت گردی کی ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں۔ انھیں بھارت بھی لے جایا جاتا ہے، انھیں بھارتی پاسپورٹ بھی دیے جاتے ہیں اور انہیں رقم بھی دی جاتی ہے۔ انڈیا نے افغانستان میں طالبان حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد طالبان کا ایک بڑا اور بااثر گروپ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اسی گروپ کی مدد سے افغانستان میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے ٹریننگ کیمپس اور ٹھکانے بنائے گے اور انہیں اربوں ڈالرز کی فنڈنگ شروع کر دی گئی جس کا نتیجہ آخری حدوں کو چھوتی ہوئی دہشت گردی کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہے۔

جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے بھارت کے دو مقاصد ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے‘ کیونکہ اسے معاشی لحاظ سے مضبوط اور پرامن پاکستان سوٹ نہیں کرتا، اور دوسرا وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ملک کے اندرونی مسائل میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کی توجہ بھارت کی طرف مبذول نہ ہو سکے اور پاکستان کشمیر پر توجہ نہ دے سکے۔

سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس صرف تین حل ہیں‘ ہم ایک مرتبہ اکٹھے بیٹھ کر پالیسی بنائیں اور پاکستان میں موجود دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کی تمام فیکٹریاں بند کر دیں‘ ہمیں اس کے لیے جو بھی کرنا پڑے ہمیں وہ کر گزرنا چاہیے ورنہ یہ چھوٹے چھوٹے زخم ہمیں قبر تک لے جائیں گے۔ دوسرا ہمیں پوری دنیا کو یہ پیغام دینا ہو گا پاکستان ایک ’’ہارڈ سٹیٹ‘‘ہے لہٰذا آپ اگر اس کو چھیڑیں گے تو یہ آپ کو نہیں چھوڑے گا، بالخصوص یہ پیغام افغانستان کو ضرور جانا چاہیے۔

جنرل مشرف نے کشمیر میں آپریشنز بند کر کے کتنی بڑی غلطی کی؟

ہم نے 45 برسوں میں افغانستان کے لیے کیا کیا نہیں کیا لیکن اس کے جواب میں ہمیں کیا ملا؟ ہمیں افغانستان کو اب یہ بتانا ہوگا افغانستان سے اگر بی ایل اے اور ٹی ٹی پی آپریٹ ہو رہی ہیں تو پھر یہ ٹھکانے ختم کرنا ہوں گے ورنہ ہمارا نقصان بڑھتا رہے گا۔ تیسرا حل یہ ہے کہ امریکا کو درمیان میں ڈال کر ہمیں بھارت کو افغانستان سے نکالنا ہو گا‘ امریکا بھی بری طرح تھک چکا ہے لہٰذا ہم اگر اسے افغانستان کا کوئی ٹھوس حل دیں تو یہ قبول کر لے گا اور ہمیں یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے‘ پاکستان اسی صورت میں بچ سکے گا، ورنہ حالات ہمارے ہاتھ سے تقریباً نکل چکے ہیں۔

Back to top button