کیا سپریم کورٹ کے سٹے آرڈر کے باوجود عمران کا ملٹری ٹرائل ممکن ہے؟

اڈیالہ جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان کا 9 مئی کے حملوں کی سازش کے الزام پر فوجی عدالت میں ٹرائل تب تک نہیں ہو سکتا جب تک اس حوالے سے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا سٹے آرڈر ختم نہیں ہو جاتا۔ عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے ملٹری کورٹ میں اپنا ممکنہ ٹرائل روکنے کی استدعا کی ہے۔ اس درخواست پر فی الحال عدالت کی طرف سے اعتراضات عائد کردیے گئے ہیں جنہیں دور کرنے کے بعد ہی اس پر کارروائی ہو گی۔ عمران خان کے خلاف ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا معاملہ تب سے زیادہ زیر بحث ہے جب سے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کو فوج کی طرف سے باضابطہ حراست میں لینے اور ان کے کورٹ مارشل کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اب یہ کہا جا رہا ہے کہ فیض حمید اور دیگر فوجی افسران عمران خان کے خلاف نو مئی کے حوالے سے وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں، لہازا یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف ملٹری کورٹ میں کیس چلانے کے لیے انہیں فوجی تحویل میں بھی دیا جا سکتا ہے جہاں ایسے گواہان کی مدد سے انہیں سخت سزا سنائی جاسکتی ہے۔

تاہم ایک جاب کپتان کے ہمدرد قانونی ماہرین کا استدلال ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سٹے آرڈر کی موجودگی میں عمران کا فوجی عدالت میں ٹرائل ممکن نہیں کیونکہ وہ سویلین ہیں۔ لیکن حکومتی حلقے کہتے ہیں کہ عمران خان کے اپنے دور حکومت میں ادریس خٹک نامی انسانی حقوق کے کارکن کا کورٹ مارشل ہوا تھا اور اسے فوجی عدالت نے 14 برس قید کی سزا سنائی تھی۔ ادریس خٹک کے خلاف چند فوجی افسران کے ساتھ مل کر سرکاری راز چرانے اور دشمن کو فراہم کرنے کا الزام تھا لہذا ایک سویلین ہونے کے باوجود ان کا کورٹ مارشل ہوا۔ اسی طرح عمران خان پر بھی یہ الزام ہے کہ انہوں نے چند ریٹائرڈ فوجی افسران کے ساتھ مل کر 9 مئی کے حملوں کی سازش تیار کی۔

پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کیے جانے کی مثالیں ماضی میں بھی موجود ہیں لیکن نو مئی کے بعد یہ بحث زیادہ شدت سے سامنے آئی اور نو مئی کے واقعات میں ملوث 103 افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں کرنے کا جب فیصلہ کیا گیا تو پاکستان تحریک انصاف اس معاملہ کو سپریم کورٹ میں لے گئی۔ 9 مئی 2023 کو ملک بھر میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے الزام میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے بیش تر افراد کا تعلق تحریکِ انصاف سے تھا۔ ان گرفتاریوں کے بعد سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی کہ سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔  اکتوبر 2023 میں عمرانڈو کہلانے والے جج جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ سویلینز کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا۔ بعد میں جسٹس اعجاز الحسن نے اپنے خلاف کرپشن الزامات پر نااہلی ریفرنس آنے کے پیش نظر استعفی دے دیا تھا۔

اعجاز الاحسن والے بینچ کے فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومتوں نے انٹراکورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کر دیا۔ بعد ازاں 6 ججوں کے سپریم کورٹ بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کر دیا۔ انٹرا کورٹ اپیلز پر 29 جنوری کو ہونے والی آخری سماعت میں جسٹس سردار طارق مسعود نے اس کیس کو لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کی سفارش کی۔ 22 مارچ کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہو گئی تھیں لیکن ابھی تک سماعت شروع نہیں ہو پائی۔

عمران خان کا ٹرائل فوجی عدالت کے بجائے سویلین عدالت میں کرنے کے امکان کے حوالے سے ائینی ماہرین کہتے ہیں کہ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے جس میں سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہ کیے جانے کا کہا گیا ہے۔ اس فیصلہ پر حکم امتناعی موجود ہے لہٰذا عمران کے خلاف ٹرائل تو ہوسکتا ہے لیکن اس میں فیصلہ سپریم کورٹ کے حتمی فیصلہ کے بعد ہی ہوگا۔ اگر اس معاملہ میں حکومت کی درخواست کے خلاف فیصلہ آیا توعمران خان کا ٹرائل کالعدم ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت ملٹری قانون کے تحت ملٹری سے تعلق رکھنے والے ہی اس قانون کے تابع ہیں۔ کوئی سویلین اگر بڑے سے بڑا جرم کرتا ہے تو اس کے لیے دہشت گردی عدالت سے لیکر دیگر عدالتیں موجود ہیں جو کسی بھی سویلین کو سخت سے سخت سزا دے سکتی ہیں۔

ملٹری عدالتوں کے معاملات پر عبور رکھنے والے لیفٹننٹ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ اب تک فوج نے عمران خان کے ملٹری عدالت میں ٹرائل کا کوئی واضح اعلان نہیں کیا البتہ عمران خان کو شک ہے کہ ان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا۔ انعام الرحیم کے مطابق عمران کے ساتھ جو بھی ہورہا ہے وہ مکافات عمل کہا جاسکتا ہے کیونکہ ان کے اپنے دور میں انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک سمیت 29 سویلین افراد کا ملٹری ٹرائل کیا گیا اور انہیں سزائیں دی گئیں۔ تین سابق فوجی جو سویلین شمار ہوتے تھے، انہیں سزائے موت اور باقی کو عمر قید سمیت مختلف سزائیں سنائی گئیں۔ انہوں نے کہا، ”جن سویلین کا ٹرائل عمران کے دور حکومت میں ہوا وہ اس وقت بھی خان صاحب کے برابر والے سیل میں موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے سویلینز کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے جس میں فیض حمید ،عمران خان اور جنرل باجوہ کو فریق بنایا ہے۔

حکومت کے مشیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک کا اس بارے میں کہنا ہے کہ عمران خان کے ٹرائل کے بارے میں ابھی فیصلہ نہیں ہوا اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کی درخواست اعتراض لگا کر واپس کردی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا، ”آئین اور قانون کے مطابق اگر کوئی شخص اپنے ذاتی مفادات کے لیے ایسا کوئی کام کرتا ہے جو ملٹری کے دائرہ کار میں آتا ہو تو اس کے خلاف ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سیکشن 94 میں یہ گنجائش موجود ہے کہ ملٹری کسی سویلین شخص کو اپنی تحویل میں لے سکتی ہے۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ضابطہ فوجداری کے سکیشن 549 کے تحت کسی بھی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوسکتا۔

Back to top button