پاکستان پر مسلط ”پراکسی جنگ“ صرف سیاستدان کیوں روک سکتے ہیں

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ اس وقت پاکستان پر جو "پراکسی جنگ” مسلط ہے اس پر قابو پانا اب پاکستانی فوج کے بس کا روگ نہیں رہا۔ انکا کہنا یے کہ اگر اس جنگ کو جیتنا یے تو سیاستدانوں کو اس جنگ کی ”کمان“ اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گی تا کہ بدامنی کے عالمی پشت پناہ ہمارے عوام کو اپنے ایجنڈے کے حصول کے لئے مہروں کی طرح استعمال نہ کر سکیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ حال ہی میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں جمعیت العلمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے اچانک اٹھ کر ایک مختصر خطاب کیا۔ ان کی تقریر کا ایک ایک لفظ ملکی سیاست کے بارے میں مضطرب ہر شخص کے لئے قابل غور ہونا چاہیے۔ اہم ترین پہلو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ مولانا کی تقریر ان کی صدر آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف سے دو اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کے بعد برسرعام آئی ہے۔ تقریباََ دو ہفتے قبل صدر زرداری وزیر داخلہ کے ہمراہ جمعیت العلمائے اسلام کے رہ نما کے گھر تشریف لے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے مولانا کو ایک بندوق بھی تحفتاً پیش کی تھی۔ مولانا کے لئے بندوق کا تحفہ میرے لئے حیران کن تھا۔ صدر زرداری نے مولانا کو بندوق کا تحفہ بغیر کسی اہم وجہ کے نہیں دیا ہوگا۔ کاش میں اس کے بارے میں باخبر ہوتا اور آپ کو بھی آگاہ رکھ سکتا۔ صدر زرداری کی ملاقات کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف بھی مولانا سے ملاقات کو تشریف لے گئے تھے۔ صدر اور وزیر اعظم کی جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ سے یکے بعد دیگرے ملاقاتوں کے بعد صحافیوں کی اکثریت نے اپنے تئیں یہ فیصلہ کر لیا کہ غالباً مولانا سے درخواست کی جا رہی ہے کہ وہ ماضی کے دوستوں سے ناراض ہوکر تحریک انصاف کی سرپرستی سے گریز کریں۔ شہباز حکومت اًئین میں ترامیم کے علاوہ دیگر قوانین کو ہوشیاری سے بروئے کار لاتے ہوئے عدالت کے لئے قواعد وضوابط پر مبنی لگام کو زیادہ مضبوط بنانا چاہ رہی ہے اور اسی تناظر میں اسے مولانا سے تعاون بھی درکار ہو گا۔

نصرت جاوید کہتے ہین کہ مولانا کی تقریر کو میرے وسوسوں بھرے دل نے ایک اور انداز سے دیکھا ہے۔ مجھے شبہ ہوا کہ شہباز حکومت اور اس کے اتحادی یہ محسوس کررہے ہیں کہ اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی وہ کامل اختیارات سے محروم ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو صدر اور وزیر اعظم نے براہ راست نہ سہی مگر دیگر پیغامبروں کے ذریعے اپنی محدودات سے آگاہ کردیا ہے۔ اپنی تقریر کے دوران مولانا نے ”امرت دھارا“ اور ”فیصل آباد کا گھنٹہ گھر“ کی تراکیب غالباً اسی تناظر میں استعمال کی ہیں۔یہ تراکیب درحقیقت ”منتخب حکومت “کی بے اختیاری کا اظہار ہے۔ ”فیصل آباد کا گھنٹہ گھر“ ہی لیکن مولانا کے ”ترجیحی سامع“ نہیں تھے۔ ”فارم 45“ اور ”فارم47“ کے مابین فرق بھلانے کا مشورہ دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کو بھی ”ہتھ ہولا“ رکھنے کا مشورہ دیتے سنائی دیے۔ اختر مینگل کے قومی اسمبلی سے دیے استعفیٰ نے اسلام آباد میں جو ہلچل مچا رکھی ہے اس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن کی تقریر مگر ریگولر اور سوشل میڈیا پر کماحقہ انداز میں زیر بحث نہ آ سکی۔ مگر اسے نظر انداز کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے رہائشی ہوتے ہوئے مولانا فضل الرحمن اپنی جماعت اور مکتبہ فکر کے مدرسوں کے نیٹ ورک کی بدولت شمالی وزیرستان سے بنوں اور لکی مروت سے لیکر ڈیرہ اسماعیل خان کو بلوچستان کے ژوپ سے ملانے والے علاقے میں پھیلے سیاسی رحجانات کو حاذق حکیموں کی طرح نبض ٹٹول کر جان لیتے ہیں۔ ان کا یہ اعتراف دل دہلادینے والا ہے کہ مذکورہ علاقوں میں ریاست پاکستان اپنا کنٹرول بہت تیزی سے کھورہی ہے۔مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد پر ابھرے گروہ جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ کے بقول کئی قصبوں اور شہروں میں قائم کمرشل پلازوں سے بھتہ لیتے ہیں۔ سورج ڈھلتے ہی یہ گروہ مرکزی شاہراہوں کے علاوہ قصبات کو ملانے والی سڑکوں پر ”پٹرولنگ“ شروع کر دیتے ہیں۔ اپنی تقریر کے دوران مولانا یہ ثابت کرنے کو بضد رہے کہ ان کے بقول خیبرپختون خواہ کے جنوبی علاقوں سے پنجاب کے میانوالی اور بلوچستان کے ژوب تک پھیلتے علاقوں میں جو ”بدامنی“ پھیلی ہوئی ہے اس کا ذمہ دار افغانستان کے طالبان کو ٹھہرانا مناسب نہیں۔ وہ مصر رہے کہ افغانستان کی سرحد سے شروع ہوکر پاکستان کی سرحد کے اندر کئی کلومیٹر تک چپے چپے پر دوسو کے قریب چیک پوسٹیں ہیں۔

نصرت جاوید کے بقول سوال اٹھتا ہے کہ اتنی چیک پوسٹوں کے ہوتے ہوئے بھی ”دہشت گرد“ وسیع وعریض علاقوں تک کیسے پہنچ جاتے ہیں۔ مختصراً یوں کہہ لیں کہ مولانا فضل الرحمن خیبر پختون خواہ کے جنوبی علاقوں سے بلوچستان کے ژوب تک پھیلے علاقوں میں مسلسل بڑھتی ہوئی ”بدامنی“ کا ”مرکز“ اور ”وجوہات“ پاکستان کی سرحد کے اندر ہی دیکھ رہے ہیں۔ مگر مولانا فضل الرحمن کی فکر مندی مگر ”مقامی“ وجوہات تک ہی محدود نہ رہی۔ وہ مصر رہے کہ پاکستان اس وقت ”پراکسی جنگ“ کا مرکز ہے۔ مبینہ جنگ کا ایک فریق چین پاکستان میں ترقی کے مختلف منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنا چاہ رہا ہے۔ موجودہ اور مزید سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کیلئے خیبر پختون خواہ کے جنوبی علاقوں سے بلوچستان کے ژوب تک پھیلے علاقوں ہی میں نہیں بلکہ بلوچستان کے 990 کلومیٹر تک پھیلے ساحلی شہروں مثلاً گوادر وغیرہ میں بھی دہشت گردی کی پشت پناہی ہو رہی ہے۔ مولانا نے دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے فریق کا بھی نام نہیں لیا۔ آپ سب مگر سمجھ دار ہیں۔ نام جان چکے ہوں گے۔ مولانا کی تقریر کا کلیدی پیغام مگر یہ تھا کہ جو ”پراکسی جنگ“ ان کی دانست میں اس وقت پاکستان پر مسلط ہے اس سے عسکری ادارے اپنے تئیں نبردآزما نہیں ہو سکتے۔ ایسے میں سیاست دانوں ہی کو اس جنگ کی ”کمان“ اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گی تانکہ بدامنی کے عالمی پشت پناہ ہمارے عوام کو اپنے ایجنڈے کے حصول کے لئے مہروں کی طرح استعمال نہ کر سکیں۔

Back to top button