کیا انقلابی صدر ٹرمپ امریکہ کو تباہ و برباد کرنے جا رہے ہیں ؟

معروف صحافی اور تجزیہ کا نصرت جاوید نے کہا ہے کہ 20 جنوری 2025 کو دوسری مرتبہ اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سے امریکی صدر ٹرمپ عجیب وغریب فیصلے کئے چلے جارہا ہے۔ اپنی کابینہ کے لئے اس نے جو لوگ نامزد کئے ہیں ان کی اکثریت کسی بھی حوالے سے اس عہدے پر فائز ہونے کے قابل نہیں جن کے لئے انہیں نامزد کیا گیا ہے۔ ان کی نامزدگی کا جائزہ لیتے ہوئے بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ واقعتا دور حاضر کا ’’انقلابی‘‘ ہوتے ہوئے امریکی ریاست کے دائمی اداروں کو نیست ونابود کرنا چاہتا ہے۔
اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ایک بات طے ہے کہ ٹرمپ بھولا نہیں بلکہ بہت کائیاں شخص ہے۔ اس کے دل میں کئی برسوں سے جو بے تحاشہ منصوبے پل رہے ہیں۔ وہ انہیں محض خواب کی صورت نہیں دیکھتا۔ اس نے انہیں عملی جامہ پہنانے کی تیاری بھی کی ہوتی ہے۔ بظاہر وہ ایک موڈی انسان دِکھتا ہے کہ دل میں جو آیا بول دیا اور اس کی کہی بات پر عمل نہ بھی ہو تو اسے بھول گیا۔ ایسے شخص سے زیادہ خطرناک شخص کوئی ہو ہی نہیں سکتا جس کے بارے میں ہم فیصلہ ہی نہ کر پائیں کہ وہ کس معاملہ میں سنجیدہ ہے اور کہاں انگریزی محاورے کے مطابق محض ’’پانی کا امتحان‘‘ لے رہا ہے۔ نومبر کا صدارتی انتخاب لڑنے سے قبل وہ نہایت ڈھٹائی سے خود کو امن کا پیغامبر کہتا رہا۔ 2016ء سے اس نے اپنے بارے میں یہ بات مشہور کر رکھی ہے کہ ایک کاروباری شخص ہوتے ہوئے وہ جنگوں سے نفرت کرتا ہے۔
لیکن اسکے مطابق امریکی عسکری قیادت، جسے ترمپ حقارت سے ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کہتا ہے، اس کے ملک کو کسی نہ کسی جنگ میں ملوث کر دیتی ہے۔ اسکا کہنا ہے کہ امریکہ سے کہیں دور لڑنے والی جنگوں میں ’’قومی مفاد‘‘ کی تلاش ممکن نہیں۔ لیکن اس جنگ کی بدولت اسلحہ ساز کارخانوں کی رونق لگ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سفارت کاروں، تھنک ٹینکوں اور این جی اوز کا ایک بہت بڑا گروہ بھی امریکی عسکری قیادت کا چمچہ بن کر اپنی دوکانیں کھول لیتا ہے۔ نصرت جاوید کے مطابق سچی بات یہ ہے کہ افغانستان کے علاوہ عراق پر مسلط کردہ جنگ کو برسرزمین جاکر رپورٹ کرنے کے بعد میں سادہ لوحی میں ٹرمپ کے خیالات کو اکثر سراہتا ہوں۔ امریکی افواج بڑے لائو لشکر سمیت افغانستان میں 21 برس تک موجود رہیں۔ ان کے وہاں قیام کے دوران ’’فوجی ٹھیکے داروں‘‘ کے کئی گروہ میری آنکھوں کے سامنے ابھرے۔ ان میں سے کئی ایک کا تعلق ہمارے صوبہ خیبرپختونخواہ سے بھی تھا۔ وہ ’’ککھ سے لکھ‘‘ ہوئے محاورے کی عملی مثال بنے۔
عمران خان کے نام پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچنے والے خیبرپختونخواہ کے کئی لوگ امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران اپنے ہاں کی پرانی ’’اشرافیہ‘‘ کے مقابلے میں ’’لکھ لٹ‘‘ نودولتیوں کی صورت ابھرے تھے۔ انہوں نے چارسدہ، مردان، صوابی اور نوشہرہ جیسے شہروں میں عمران خان کے نام پر ووٹ حاصل کئے۔ اسمبلیوں میں پہنچے تو اپنے اثرورسوخ کو نہایت بے دردی سے استعمال کیا۔ علی امین گنڈاپور کے دور میں بھی یہ چلن جاری ہے۔
نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ امریکہ میں قیام کے دوران انہوں نے عام امریکی شہری کو بالعموم انتہائی سادہ، صاف گو اور کئی حوالوں سے انسان دوست محسوس کیا۔ انکے مطابق امریکہ کے ریاستی اور غیر ریاستی اداروں کے نظام نے بھی انکو بہت متاثر کیا۔ انکا کہنا یے کہ ان پہلوئوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں دیانتداری سے یہ سوچتا ہوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہائوس آمد اس ملک کے لئے خیر کی خبر نہیں۔ پھر یہ سوچتے ہوئے خود کو تسلی دیتا ہوں کہ ٹرمپ جانے اور امریکی جنہوں نے اسے نہایت اشتیاق سے 2024ء کے صدارتی انتخاب میں ووٹ دئے ہیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اب تو یہ بھی واضح ہو چکا کہ ٹرمپ افراتفری کو محض امریکہ تک ہی محدود رکھنا نہیں چاہتا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے وحشیانہ ضد کے ساتھ غزہ میں مسلسل بمباری سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف اسرائیل کا وزیر اعظم نیتن یا ہو پہلا غیر ملکی سربراہ ہے جسے واشنگٹن ٹرمپ سے ملاقات کے لئے مدعو کیا گیا ہے۔ واشنگٹن آمد سے قبل تین مرتبہ نیتن یاہو نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اس وقت تک غزہ میں داعی امن کو آمادہ نہیں ہوگا جب تک وہاں نسلوں سے آباد 20 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو مصر اور اردن اپنے ہاں آباد کرنے کو آمادہ نہیں ہوتے۔ فلسطینی نیتن یاہو کے نزدیک انسان نہیں بلکہ ’’بدی‘‘ ہیں جن سے غزہ کی پٹی کو صاف کرنا ہوگا۔ صیہونی نسل پرستوں نے 1948ء سے جاری ہوئی ’’نقبہ ‘‘کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کے آبائی قصبوں اور گھروں سے زبردستی نکال کر اسرائیل کو وسعت دینا شروع کی تھی۔ نیتن یاہو کی واشنگٹن جانے سے قبل غزہ کے متعلق ہوئی تقاریر صیہونی توسیع پسندی کا اظہار ہیں۔
نصرت۔جاوید کے بقول غزہ کو فلسطینیوں سے ’’پاک‘‘ کرنے کا مشن ٹرمپ نے نیتن یاہو سے ’’اچک‘‘ لیا ہے۔ نیتن یاہو کے ساتھ کھڑے ہوکر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر وہ اس پٹی میں امریکی فوج بھیجے گا۔ وہ اس علاقے کو دھماکہ خیز مواد اور بمباری سے جمع ہوئے ملبوں کے انبار سے صاف کردے گی تو امریکہ غزہ میں ایک نئی بستی بنائے گا۔ مجوزہ بستی اسرائیل یا فلسطینیوں کی نہیں بلکہ امریکہ کی ’’ملکیت‘‘ ہوگی۔ سمندر کے کنارے آباد جدید ترین سہولتوں سے آباد بستی۔ لیکن فلسطینیوں کو ’’شرپسند‘‘ ہونے کی وجہ سے وہاں رہنے کا حق نصیب نہیں ہوگا۔ ٹرمپ مصر اور اردن وغیرہ کو مجبور کرے گا کہ وہ انہیں اپنے ہاں آباد کرے۔ نظر بظاہر غزہ کی پٹی ہتھیانے کا جو اعلان ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا وہ ’’اچانک‘‘ وحیران کن ہے۔ تھوڑی تحقیق کا تردد کریں اور انٹرنیٹ پر جا ئیں۔ وہاں سرچ میں Middle East Initiative لکھیں۔ یہ پروگرام امریکہ کا مشہور کنیڈی سکول آف گورنمنٹ چلاتا ہے۔ وہاں ایک تقریب سے ٹرمپ کے یہودی داماد جیرڈ کشنر نے خطاب کیا تھا۔ یہ خطاب 2024ء میں ہوا اور یوٹیوب پر بآسانی میسر ہے۔ فروری 2024ء میں ہوئے خطاب کے دوران جیرڈ کشنر واضح الفاظ میں یہ کہہ رہا ہے کہ غزہ جب فلسطینیوں سے خالی ہوجائے تو سمندر کے کنارے ایک جدید ترین بستی بنائی جائے۔ وہ دنیا کی ایک بہترین اور قیمتی تفریح گاہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ بظاہر اب اسی منصوبے پر عمل درامد ہو رہا ہے۔
کینیڈا کے بعد پاکستان میں بھی را کے ہاتھوں 5 کشمیری کمانڈرز قتل
قصہ مختصر نیتن یاہو کی امریکہ میں موجودگی کے دوران ٹرمپ نے غزہ پر ’’حق کا دعویٰ‘‘ اچانک نہیں کیا۔ اس کے لئے تیاری پہلے سے ہو چکی تھی۔ اب فقط اعلان ہوا ہے۔