کیاپاکستان کے ایٹمی اثاثے خطرے میں ہیں؟

آج کل پاکستان کے گرد آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے گھیرا تنگ کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بنارہے ہیں۔ ان مالیاتی اداروں کی یہ منصوبہ بندی ہے کہ پاکستان جب ڈیفالٹ کے قریب پہنچ جائے جو کہ ہم تقریباً پہنچ چکے ہیں اور معیشت میں اتنی سکت نہ رہے کہ وہ اپنے قرضے یا اُن کا سود ادا کرسکے تو امریکہ، آئی ایم  ایف کے ذریعے ایسے بیل آئوٹ پیکیج کی پیشکش کرے جس کے بدلے میں پاکستان کو اپنے نیوکلیئر پروگرام پر سمجھوتہ کرنا پڑے۔

ان خدشات کا اظہار معروف صنعت کار، پاکستان کے اعزازی سفیر اور کالم نگار مرزا  اشتیاق بیگ نے اپنی ایک تحریر میں کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ  دنیا کے مشہور معاشی قاتل جان پرکنز  (john Perkins ) نے اپنی سوانح عمری "کنفیشن آف این اکنامک ہٹ مین Confessions of an Economic Hitman میں  یہ انکشاف کیا تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی ادارے پسماندہ ممالک کو قرضے دے کر اپنے جال میں پھنساتے ہیں اور اُن کی معیشتوں کو گروی رکھ لیتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے یہ مالیاتی ادارے ہٹ مین کے ذریعے پسماندہ ممالک کی لیڈرشپ کو قائل کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں معیشت کے حوالے سے عالمی مالیاتی اداروں سے بڑی رقوم قرض لیں تاکہ انہیں قرض کے بوجھ تلے دبایا جاسکے۔

جان پرکنز کے بقول یہ ادارے معاشی قاتلوں کا موثر آلہ ہیں جو قدرتی وسائل سے مالا مال پسماندہ ممالک کیلئے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے بڑے قرضوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ ان قرضوں کا ایک بڑا حصہ مغربی مشاورتی کمپنیوں کی کنسلٹنسی فیس کی مد میں ادا کردیا جاتا ہے اور پھر پاور ہائوس، انفراسٹرکچر اور انڈسٹریل پارک جیسے ترقیاتی منصوبے بھی مغربی کمپنیوں کو دے دیے جاتے ہیں جبکہ اِن قرضوں سے ہونے والی کرپشن بھی لوٹ کر واپس مغربی ممالک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح یہ پسماندہ ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں جنہیں وہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ بالاخر اِن ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط ماننا پڑتی ہیں، پھر یہ ادارے ان ممالک کے حکمرانوں کو نادہندگی سے بچانے کیلئے قرضے ری اسٹرکچر کرنے کی تجویز دیتے ہیں اور اس طرح قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید نئے قرضے دے کر عالمی مالیاتی اداروں کو ان ممالک کی معیشت گروی رکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ایسی صورتحال میں ان ممالک کے قدرتی وسائل، تیل، گیس اور معدنی ذخائر پر مغربی طاقتوں اور مالیاتی اداروں کی ملٹی نیشنل کمپنیاں کنٹرول حاصل کرلیتی ہیں جبکہ ان ممالک کو مغربی ممالک اپنے فوجی اڈوں کے قیام اور اُن کے راستے دفاعی اشیا کی آمد و رفت جیسے معاہدے کرنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔

مرزا اشتیاق بیگ کہتے ہیں کہ کتاب پڑھ کر جب میں نے اس کا موازنہ پاکستان کی معاشی صورتحال سے کیا تھا تو مجھے دونوں میں بڑی مماثلت نظر آئی جو آج کافی حد تک درست ثابت ہورہی ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئی ایم ایف کو امریکی اور ان مغربی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جن کی آنکھوں میں پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام اور سی پیک منصوبہ شروع دن سے کھٹک رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کی اکنامک مینجمنٹ کو آئوٹ سورس کرنا اور آئی ایم ایف سے مزید قرضے لینا ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ثابت ہورہا ہے۔ ایسے میں جب آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدے کیلئے مذاکرات تاخیر کا شکار ہیں اور حکومت پاکستان آئی ایم ایف کے مطالبے پر عوام پر نئے ٹیکسز عائد کررہی ہے مگر اس کے باوجود آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آتا، گزشتہ دنوں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (.I.A.E.A) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی کی قیادت میں 5رکنی ٹیم کا حالیہ دورہ پاکستان شکوک و شبہات اور افواہوں کو جنم دے رہا ہے۔ مرزا اشتیاق بیگ  کے مطابق  کچھ حلقوں کی جانب سے ایسے دعوے اور الزامات سامنے آئےہیں  کہ ڈی جی .I.A.E.A کے دورے کا مقصد معاشی بحران کےشکار ملک سے ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتے کیلئے دبائو ڈالنا تو نہیں؟کہیں ایسا نہ ہو کہ(خدانخواستہ) عالمی مالیاتی ادارے اور معاشی قاتل اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوجائے اور ہمیں اپنے نیوکلیئر اثاثوں پر سمجھوتہ کرنا پڑے؟

اسلام آباد یونائیٹڈ نے پشاور زلمی کو 6 وکٹوں سے شکست دیدی

Back to top button