بھارت کا پاکستان پر پہلگام حملے کا الزام سفید جھوٹ کیسے ثابت ہوا؟

مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں ملوث تنظیم اور اسکی قیادت اب کھل کر سامنے آ گئی ہے اور بھارت کی جانب سے پاکستان پر لگایا جانے والا الزام جھوٹا ثابت ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس حملے کی ذمہ داری کشمیری جہادی تنظیم ۔ ’دا ریزسٹنس resistance فرنٹ‘ یا ٹی آر ایف نے قبول کر لی ہے۔
انڈین میڈیا میں بھہ پہلگام حملے میں 27 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری جس گروپ پر ڈالی جا رہی ہے وہ 2019 میں مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ارٹیکل 370 لگانے کے بعد رد عمل کے طور پر وجود میں آئی تھی۔ ٹی آر ایف نامی تنظیم نے پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کی وجوہات بھی بیان کی ہیں۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر میں مودی سرکار کی جانب سے غیر مقامیوں یعنی غیر کشمیریوں کو ڈومسائل دے کر بسانے کی کوشش ناکام بنا کر رہے گی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ میں انڈین حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دی ریزسٹنس فرنٹ نامی گروپ نے سوشل میڈیا اور آن لائن فورمز پر ’کشمیری ریزسٹنس‘ کا لفظ استعمال کیا۔ تاہم، اس گروپ نے ماضی میں اپنے پروپیگنڈے میں ’ریزسٹنس فرنٹ‘ کا نام استعمال کیا۔
پہلگام حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ٹی آر ایف کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ان 85000 ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کے جواب میں کیا گیا ہے جو مودی سرکار کے ایما پر مقبوضہ کشمیر میں آباد کرائے جانے والے غیر مقامی لوگوں کو جاری کیے گئے ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں پر تشدد جاری رکھا جائے گا جو غیر قانونی طور پر کشمیر میں آباد ہونے کی کوشش کریں گے۔’ دی ریزسٹنس فرنٹ خود کو ‘کشمیری مزاحمت’ کے لیے لڑنے والا ایک آزاد عسکریت پسند گروپ بتاتا ہے، لیکن بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق، یہ لشکر طیبہ کا ایک ایک فرنٹ ہے۔ انڈین وزارت داخلہ نے 2023 میں اس تنظیم پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت پابندی لگا دی تھی۔
بھارتی وزارت داخلہ کے مطابق، یہ تنظیم نوجوانوں کو آن لائن بھرتی کر کے دہشت گردانہ سرگرمیوں کو فروغ دے رہی تھی۔ اس کے علاوہ، ٹی آر ایف دہشت گرد سرگرمیوں، دراندازی اور پاکستان سے جموں و کشمیر میں ہتھیاروں اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث رہی ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے ٹی آر ایف کے کمانڈر شیخ سجاد گل کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔
ٹی آر ایف ماضی میں دوسری ریاستوں سے جموں کشمیر آ کر آباد ہونے والے تارکین وطن اور کشمیر میں اقلیتی ہندو برادری پر حملوں کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔ جون 2024 میں، جموں میں ہندو زائرین کو لے جانے والی بس کو حملے کو میڈیا نے اس گروپ سے منسوب کیا تھا، لیکن ٹی آر ایف نے بعد میں اس حملے سے تعلق کی تردید کی تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹی آر ایف سے منسوب تازہ بیان کو علاقے یا عسکریت پسندوں پر نظر رکھنے والے بیشتر تجزیہ کاروں نے بھی شیئر نہیں کیا۔ نامناسب برانڈنگ اور محدود مواد کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خطے کے دیگر جہادی گروپوں، جیسے کہ دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ سے وابستہ تنظیموں کے برعکس ٹی آر ایف کا میڈیا آپریشن زیادہ مربوط نہیں اور یہ گروپ ٹیلی گرام کے ذریعے ’ریزٹسنس میڈیا‘ کے نام سے اپنا پروپیگنڈا کرتا ہے۔
ماضی میں ٹی آر ایف کے بیانات ’جہلم میڈیا ہاؤس‘ کے ذریعے آتے تھے لیکن، گذشتہ برس جموں حملے کے بعد، ٹی آر ایف نے جہلم میڈیا ہاؤس کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس میڈیا آؤٹ لیٹ کا گروپ سے ’براہ راست یا بالواسطہ‘ کوئی تعلق نہیں۔ زیادہ تر انڈین میڈیا نے کالعدم لشکر طیبہ کو اس حملے کا اصل ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی آر ایف صرف ایک ’سموک سکرین‘ ہے حالانکہ اس نے پہلگام میں ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس سے پہلے 23 اپریل کو ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ میں کہا تھا کہ سجاد گل کی قیادت میں ٹی آر ایف نامی گروپ کی کارروائیوں کو پاکستانی ریاست اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہے۔
دوسری جانب ٹی آر ایف نے خود کو لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین جیسے اسلامی گروپوں سے دور کرنے کے لیے ’غیر مذہبی علامات اور بیان بازی کو اپنایا ہے اس نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی توجہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم سے نرم اہداف پر حملہ کرنے پر مرکوز کر دی۔ اردو سے بات کرتے ہوئے۔ معروف صحافی شیبا اسلم فہمی کے مطابق ’وہ پہلگام ہو یا ماضی کے دیگر واقعات، انڈین میڈیا بارہا خود کو شرمندہ کر چکا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’یہ شاک ڈاکٹرائن ہے۔ ایسا کچھ کہہ دو کہ سب کی توجہ اس پر مرکوز ہو جائے۔ ٹی آر ایف جیسے گروپ کا نام ڈال کر ’شاک ویلیو‘ پیدا کی جا رہی ہے۔‘ انڈین صحافی نے کہا کہ ’انڈیا میں 2014 کے بعد سے میڈیا سیلف ٹریگر موڈ پر رہتا ہے۔ جب بھی کسی بڑے حادثے کے بعد انڈین حکومت سے یہ سوال کرنے کی نوبت آتی ہے کہ آپ نے اپنا کام کیوں نہیں کیا تو میڈیا خود ہی حکومت کی طرف سے بیٹنگ کرنے لگ جاتا ہے، وہ اسے کور فائر دینے لگتا ہے تاکہ اسکی کمزوریاں چھپ جائیں”۔
شیبا فہمی کا کہنا تھا کہ ’اس بار بھی کارپوریٹ میڈیا نے حکومت کو ایسے سوالات سے بچانے کی بھر پور کوشش کی کہ پہلگام میں سکیورٹی کیوں نہیں تھی؟ اور جوابی ردعمل میں تاخیر کیوں ہوئی؟