ایف آئی اے نے پاکستانی یوٹیوبرز کے بینک اکاؤنٹس کیوں بلاک کر دئیے؟

 وفاقی تحقیقاتی ادارے نے ریاست اور فوج مخالف پروپگنڈا کرنے پر کئی پاکستانی یوٹیوبرز، صحافیوں اور ان کے خاندانوں کے افراد کے بینک اکاؤنٹس بلاک اور منجمد کر دیئےییں۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جن یوٹیوبرز اور صحافیوں کے بینک اکاؤنٹس بلاک یا منجمد کیے گئے ہیں ان میں گیلا تیتر کہلانے والے عمران ریاض خان، صدیق جان اور اسد طور بھی شامل ہیں، ایف آئی اے نے ان یوٹیوبرز اور صحافیوں کے رشتہ داروں، بچوں اور خواتین کے بینک اکاؤنٹس بھی بظاہر اس وجہ سے منجمد کر دیئے کہ وہ ان کے اہل خانہ یا قریبی رشتہ دار ہیں۔ سینئیر صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ انکی بیوہ بہن کا پینشن اکاؤنٹ بھی منجمد کر دیا گیا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ ریاستی ادارے انہیں ریاستی پالیسیوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے دیوار کے ساتھ لگا رہے ہیں۔ مطیع اللہ جان نے معروف ویب سائٹ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ ریاستی ادارے انہیں اپنی مرضی کی صحافت کرنے پر سزا دینا چاہتے ہیں، لیکن ان کے رشتہ داروں کو کیوں تنگ کیا جا رہا ہے؟

مطیع للہ نے دعویٰ کیا کہ ریاست انکے خلاف ہر طرح کے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے تاکہ انہیں صحافت کا پیشہ چھوڑنے یا ریاستی پالیسیوں بارے اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔

مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ ”یہ صحافی برادری کے لیے بدترین دور ہے۔ اس سے پہلے  امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کو ان کے گھر سے اٹھا کر غائب کر دیا گیا گیا۔ اب صحافیوں کے رشتہ دار بھی ان کے صحافتی جرائم کی سزا بھگت رہے ہیں‘‘۔ مطیع اللہ جان نے بتایا کہ ان کی ایک گاؤں میں رہنے والی بہن کے پینشن اکاؤنٹ کو منجمد کر دیا گیا اور اس ایکشن  کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی جا رہی۔

گیلا تیتر کا لقب پانے والے یوٹیوبر صحافی عمران ریاض خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نہ صرف ان کے ذاتی بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیئےگئے ہیں بلکہ کچھ ایسے افراد کے اکاؤنٹس بھی بلاک کر دیئے گئے ہیں، جنہیں ان کا خاندان ‘خیراتی رقوم‘ بھیجا کرتا تھا اور اب ایسے لوگ بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان سے فرار ہو کر لندن میں پناہ لینے والے عمران ریاض خان نے کہا، ”میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اس خیراتی کام کو ظاہر کیا جائے۔ لیکن اب یہ بتانا ضروری ہو گیا ہے کہ ریاست اس حد تک انتقامی مزاج کی حامل ہو چکی ہے کہ وہ اختلافی نظریات کی وجہ سے نہ صرف انہیں بلکہ ان ضرورت مند انسانوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے، جن کی ہم مدد کر رہے تھے۔‘‘

صحافی اور یوٹیوبر اسد طور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا ذاتی بینک اکاؤنٹ، ان کے والدین، دو بھائیوں، ایک کزن، انکی اہلیہ اور انکے دو نابالغ بچوں تک کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں۔

اسد طور کے مطابق، ”میں نے صرف اپنے کزن کو کچھ پیسے ادھار دیے تھے۔ اب اس کا پورا خاندان متاثر ہو رہا ہے۔ میرے اکاؤنٹ میں یا اس سے رقوم کی منتقلی قطعاﹰ جائز اور قانونی ہے۔ یہ رقوم یوٹیوب کے ذریعے ہونے والی کمائی کے طور پر مجھے منتقل ہوتی ہیں۔ میرے بینک اکاؤنٹ میں کچھ بھی خفیہ نہیں۔ لیکن ریاستی عناصر جو کچھ بھی کر رہے ہیں، اسکی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی جا رہی۔ یہاں تک کہ میرے کزن کے دو نابالغ بچوں کے سیونگ بینک اکاؤنٹس بھی بند کر دیے گئے۔‘‘

متاثرہ پاکستانی یوٹیوبرز اور صحافیوں کے مطابق متعلقہ بینکوں نے بظاہر وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ہدایت پر ان کے اور ان کے رشتہ داروں کے اکاؤنٹس منجمد کیے ہیں، لیکن دراصل پس پردہ ڈوریاں کوئی اور طاقت ہلا رہی ہے۔اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے یوتھیے یوٹیوبر صدیق جان کے بینک اکاؤنٹ بھی بلاک کر دیے گئے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے خفیہ ایجنسیاں ہیں اور ایف آئی اے والے یہ اقدامات اپنے طور پر نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا، ”یہ ایکش  مکمل غیر قانونی ہے۔ ہماری آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ایسے اقدامات کا اثر ہمیشہ الٹا ہوتا ہے اور ریاست کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچتا ہے۔‘‘

متاثرہ یوٹیوبرز اور صحافیوں نے الزام لگایا کہ ریاست صحافی برادری کو کھلم کھلا انتقام کا نشانہ اس لیے بنا رہی ہے کہ وہ عدالتی نظام پر بھی اثر انداز ہو چکی ہے۔ ان صحافیوں کے بقول ریاست کو یقین ہو گیا ہے کہ متاثرین کو ”انصاف کی فراہمی کے لیے عدلیہ اب کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔‘‘

برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے عمران ریاض خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ”انہوں نے عدلیہ کو اپنا غلام بنا لیا ہے۔ اب عدلیہ سے انصاف ملنے کی امید نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ اسی لیے ریاست کھلے عام اس طرح کے غیر اخلاقی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔ لیکن وہ یہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے گی۔‘‘

پاکستانی صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یپ اقدامات غیر قانونی ہیں اور یوٹیوبرز اور صحافیوں کے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں کا ہراساں کیا جانا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے صدر طارق ورک نے کہا کہ ”ہم اپنے ساتھیوں کے بینک اکاؤنٹس بلاک کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہیں اغوا کیا جا رہا ہے۔ ان کے خاندانوں تک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ریاست صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر کے انہیں گھٹنوں پر لانا چاہتی ہے اور یہ سب قابل مذمت حربے ہیں۔‘‘

تاہم طارق ورک نے یہ اعتراف کیا کہ بعض اوقات صحافی بھی اپنی حدود سے تجاوز کر کے ریاست مخالف مہم چلانے والی سیاسی جماعتوں کے پراپیگنڈا بریگیڈ کا حصہ بن جاتے ہیں، چنانچہ ایسی صورت میں ”ریاست کو ان کے خلاف قانونی راستہ اختیار کرناچاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر قانونی راستے سے مراد موجودہ پیکا قانون ہے، تو وہ اس لیے ناقابل قبول ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ان کے بقول پیکا قانون میں ”جھوٹی خبر‘‘ کی تعریف مبہم ہے اور اس قانون میں ترمیم ناگزیر ہے۔

Back to top button