پہلگام حملے کے بعد پاک بھارت جنگ ہونی چاہیے یا کہ مذاکرات؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا ہے کہ پہلگام حملے کے بعد ایکدوسرے پر الزام تراشی کرنے اور جنگ کی دھمکیاں دینے کی بجائے دونوں نیوکلیئر ہمسائیوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنے اختلافات دور کرنے چاہئیں۔ انکا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی معیشت کمزور ہے تو بھارت کی معیشت کو بھی جنگ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا لہذا دونوں ممالک کو سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا چاہیے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ جموں کشمیر کے شمال مشرقی علاقے پہلگام میں نامعلوم افراد نے سیاحوں پر فائرنگ کر دی جس سے دو غیر ملکی شہریوں سمیت 28 افراد مارے گئے ۔حالیہ برسوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد جموں کشمیر کے متنازع علاقے میں ہونے والا یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔ لیکن بھارتی حکومت نے بغیر کسی تصدیق یا دستاویزی ثبوت کے حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کر دی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سعودی عرب کا دورہ مختصر کر کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے متعدد اقدامات کا اعلان کیا۔ انہ2ں نے سندھ طاس معاہدے کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے، تمام پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کر کے ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ متعدد پاکستانی سفارت کاروں کو ناپسندیدہ قرار دے دیا گیا ہے۔امریکا اور روس نے فوری طور پر بھارتی مؤقف کی حمایت کی ہے جبکہ چینی ردعمل بارے ملی جلی اطلاعات ہیں۔
پاکستانی حکومت نے 24 اپریل کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارتی اقدامات کا جواب دیتے ہوئے اعلان کیا کہ سندھ طاس معاہدے میں تعطل سے پاکستان کا پانی روکا گیا تو اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔ اسکے بعد پاکستان کی جانب سے سکھ یاتریوں کے سوا تمام بھارتی شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیے گئے۔ بھارتی طیاروں پر پاکستانی فضائی حدود بند کر دی گئی ہیں۔ متعدد سفارت کاروں کو پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔
وجاہت مسعود بتاتے ہیں کہ ہماری قومی سلامتی کمیٹی نے شملہ معاہدہ سمیت تمام دوطرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہوئے بھارتی اقدامات کو یک طرفہ، غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔ پاکستان کا ردعمل قابل فہم ہے۔ یہ رائے بھی درست ہے کہ سندھ طاس معاہدہ کے بین الاقوامی بندوبست کو یک طرفہ طور پر معطل نہیں کیا جا سکتا۔ اس حساس معاملے میں امید کی واحد کرن یہ ہے کہ دونوں حکومتوں نے دہشت گردی کے اس واقعے کے ردعمل میں جو فیصلے کئے ہیں انہیں سفارتی زبان میں براہ راست جنگ سے گریز کرتے ہوئے غیر عسکری اقدامات سمجھا جائے گا۔ پاکستان اور بھارت دو ایٹمی قوتیں ہیں۔ ایسی صورت میں کسی ایک فریق کے فیصلہ کن جنگی بالادستی حاصل کرنے سے ایٹمی تصادم کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کی کل آبادی پونے دو ارب ہے لیکن پاکستان اور بھارت کے حجم، معیشت اور عسکری وسائل میں واضح فرق ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ 73 ارب ڈالرز اورپاکستان کا دفاعی بجٹ سات ارب ڈالرز ہے۔ بھارتی معیشت کا حجم 4.27 کھرب ڈالر ہے جبکہ پاکستانی معیشت 337 ارب ڈالر پر محیط ہے۔ بھارت کی آبادی پاکستان سے چھ گنا زیادہ ہے۔ دونوں ممالک میں وسائل کے اس قدر غیر متناسب ہونے سے اندیشہ بڑھ جاتا ہے کہ کوئی ایک فریق جنگی صورت حال کو ناموافق دیکھتے ہوئے انتہائی اقدام کر سکتا ہے جس کے نتائج ناقابل تصور ہیں۔
وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ذرائع ابلاغ میں جنگجو پسندی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ بھارت نے حالیہ عشروں میں تیز رفتاری سے معاشی ترقی کی ہے جس کے نتیجے میں بھارتی صحافت اور رائے عامہ میں رعونت کی نفسیات پیدا ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھی غیر ذمہ دار نعرے بازی کرنے والوں کی کمی نہیں۔اخبار کے صفحات اور ٹیلی ویژن کی اسکرین پر غیر حقیقت پسند قوم پرستی کا راگ الاپنا آسان ہے۔ میدان جنگ میں آگ اور خون کا سامنا کرنے والی افواج کی صورتحال مختلف ہوتی ہے۔
وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ پاک بھارت کارگل جنگ ہوئے ربع صدی گزر چکی ہے۔ اس جنگ کے دوران اپنی جان دینے والے بھارتی کپتان وکرم بترا نے کارگل کی جن برفیلی چوٹیوں تک پہنچتے ہوئے اپنی جان دی تھی آج انکی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اقوام جنگوں سے نہیں بلکہ دوستی اور تعاون بڑھانے سے ترقی کرتی ہیں۔ پہل گام کا واقعہ قابل مذمت ہے لیکن اسے جنگی تصادم میں تبدیل کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں۔ پاکستان اور بھارت میں معاشی ترقی اور خطے میں امن کا راستہ وہی ہے جس کی طرف بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم واجپائی اور نواز شریف نے فروری 1999ء میں قدم بڑھایا تھا۔تب اس پیش رفت کا انجام خوشگوار نہیں رہا تھا لیکن اس ناکامی سے اس اصول کی افادیت ختم نہیں ہوتی کہ دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنے اختلافات دور کرنے چاہئیں۔
اگر پاکستانی معیشت کمزور ہے تو بھارتی معیشت کو بھی جنگ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہذاپہلگام کے افسوس ناک واقعے کو دوہمسایوں کے درمیان جنگ کی بجائے مذاکرات شروع کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔