بلوچستان میں دہشت گردی کا حل فوجی آپریشن ہے یا سیاسی سوچ؟

 معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا ہے کہ صوبہ بلوچستان میں دہشت گردی کی آگ کو بجھانے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست ایک اور فوجی آپریشن شروع کرنے کی بجائے بلوچستان کے نوجوانوں کو سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش کرے تا کہ ایک قومی دھارا تشکیل پا سکے۔ اس عمل کا آغاز حقوق بلوچستان جیسا پیکج دے کر کیا جا سکتا ہے۔ ریاست جس خطرناک موڑ پر کھڑی ہے وہاں اسے کثیر الجہتی اقدامات کی ضرورت ہے مگر اس سب سے پہلے ریاست کو انکار کی کیفیت سے نکلنا ہو گا۔ اسے ناراض دلوں اور ذہنوں کو جیتنے کی ترکیب لگانا پڑے گی جو صرف سیاست کے رستے ہی نکل سکتی ہے۔

بی بی سی اردو کے لیے اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ المیہ اور کیا ہو گا کہ ایک ریاست کے 80 ہزار سے زائد افراد، شخصیات، اہلکار اور جوان دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ جائیں اور پھر بھی دہشت گردی کے خلاف بیانیہ نہ بن سکے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ جنازے اُٹھانے والے کندھے جنازے اُٹھا اُٹھا کر جھک جائیں مگر مارنے والوں کے خلاف نفرت پیدا نہ ہو سکے، کیا بدنصیبی ہے کہ ہر دس سال بعد دہشت گردی روپ بدل کر آ جائے اورامن کا وقفہ مختصر سے مختصر ہوتا چلا جائے۔

سچ تو یہ ہے کہ دہشت گردوں نے نفرت کا ایک مقبول بیانیہ بنا لیا ہے مگر ہم محبت کا بیانیہ بھی نہیں بنا پائے۔ انتہا پسند میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک سب ایک واضح پالیسی کے ساتھ لیس ہیں لیکن ہم اب تک دہشتگردوں کے حامی نہیں پہچان سکے۔

سینیئر اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ فسادی عناصر عوام کی پذیرائی کے لیے جھوٹ کا ہر حربہ آزما رہے ہیں مگر ہم سچ بتانے میں بھی کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ کچھ تو ہے جسے اب کھوجنا ہو گا، خود سے سچ کہنا ہو گا، انکار کی کیفیت سے نکلنا ہو گا۔ انکا کہنا یے کہ ارباب اختیار و اقتدار گذشتہ پالیسوں پر طعنہ زن ہوتے ہیں تو انتشار پسند مورچہ زن۔ ہر پانچ برس میں کئی فوجی آپریشنز جنم لیتے ہیں اور سوال پھر امن و امان کو درپیش خطرات کی صورت ہی نکلتا ہے۔ ہر بدلتی حکومت میں نیشنل ایکشن پلان کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے لیکن ہر بار اس ایکشن میں قوم کو شامل کرنے کی اہمیت منفی ہو جاتی ہے۔ 2014 میں نیشنل ایکشن پلان مرتب ہوا جو تمام سیاسی جماعتوں کا متفقہ تھا اور نتیجہ ایک کامیاب آپریشن کی صورت ہوا جس کا نام ضرب عضب تھا۔ اسی طرح آپریشن راہ حق جس کے تحت تین ماہ میں سوات کو دہشت گردوں سے پاک کیا گیا اور وہاں کے باسی مختصر ترین وقت میں گھروں کو لوٹے۔ یہ آپریشن بھی وہاں کی سیاسی جماعتوں کی شمولیت اور رضامندی کے بغیر ممکن نہ تھا۔

عاصمہ کا کہنا ہے کہ عوام میں پذیرائی رکھنے والی سیاسی جماعتیں جن کی جڑیں عوام میں ہوں اُن کی مدد کے بغیر کسی قسم کی فوجی آزمائش یا مشق محض غلطیوں اور سانحوں کو جنم دیتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان سے طورخم کی سرحد تک ریاست ایک چیلنج سے نمٹ رہی ہے۔ صرف ایک برس میں ایک ہزار 758 دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔ سکیورٹی اہلکار جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں جبکہ ہم ایک حملے سے دوسرے کے درمیان وقفے کو امن قرار دیتے ہیں۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک واضح اور مفصل ’سافٹ سٹیٹ‘ یعنی نرم ریاست کے بیانیے کی ضرورت ہے اور پھر ’ہارڈ سٹیٹ‘ یعنی سخت گیر ریاست کے تڑکے کی اہمیت بھی ہے۔ لیکن اس سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک سافٹ ریاست کے طور پر ناکامی سے کیوں دوچار ہیں؟ دراصل ریاست پاکستان کو ایک ہی وقت میں مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ ایک طرف بلوچستان جہاں علیحدگی پسند سرگرم ہیں اور آئے دن بے گناہوں کا قتل کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف تحریک طالبان اور اس جیسی کئی تنظیمیں خیبر پختون خوا میں دہشت پھیلا رہی ہیں۔ اُن کا مرکزی ہدف اب عوام کی بجائے سیکیورٹی اہلکار ہیں، یعنی ٹی ٹی پی عوام کے دلوں میں گھر کرنے کے لیے اُنہیں اب نشانہ نہیں بنا رہی۔ سوال یہ یے کہ کیا طالبان کو اس سلسلے میں عوام میں پذیرائی مل رہی ہے؟ کیا اُنہیں اہلکاروں کو نشانہ بنانے میں عوام کی جانب سے کسی رکاوٹ کا سامنا ہے؟ ریاست کو طالبان کی جانب سے ہونے والی دہشت گردی کی کارروائی اور اس کی پذیرائی کے دونوں پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا۔

عاصمہ کہتی ہیں کہ حال ہی میں ڈی آئی خان اور  بنوں میں عوامی مزاحمت اور فوجی کارروائی کے بعد طالبان دہشت گردوں کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ خیبر پختونخواہ میں عوام دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت کرتے نظر آتے ہیں۔  پختونخوا کے بہادر عوام انتہا پسندی کا شکار ہیں اور اپنے سماجی ڈھانچے کی بربادی کا ادراک بھی رکھتے ہیں مگر وہاں ایسے ماحول کی ضرورت ہے جس میں سیاسی و عوامی جماعتیں ریاست کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ریاست تحریک انصاف سمیت تمام عوامی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھ سکتی ہے؟ یاد رہے کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا کسی بھی آپریشن کے مخالف ہیں اور عمران خان بھی دہشت گردوں کے خلاف عوامی بیانیہ لے کر چلنے کو تیار نہیں۔

دوسری جانب بلوچستان میں علیحدگی پسندوں اور ریاست کے درمیان لگی آگ نے بھڑکنا شروع کر دیا ہے۔ بلوچستان میں قدرتی اور عوامی سیاسی جماعتوں کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا گیا ہے۔ عوام اور ریاست کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے والی سیاسی جماعتوں کو سیاسی نظام سے ’مائنس‘ کیے جانے کا عمل ایک عرصے سے جاری تھا اور اس تابوت میں آخری کیل 2015 میں ڈاکٹر مالک کی حکومت برطرف کر کے ٹھونک دی گئی۔ اب مصنوعی اور غیر فطری سیاسی ماحول میں اصل قیادت کہیں اور چلی گئی ہے، بات بہت آگے نکل گئی ہے اور اس بار تھوڑے سے بات نہیں بنے گی۔ اس صورتحال کا حل ایک متفقہ نیشنل ایکشن پلان ہے۔ ریاست کو بلوچستان کے نوجوانوں کو سیاسی دھارے میں لانا ہو گا جبھی قومی دھارا تشکیل پائے گا۔ اُس کے لیے لیپ ٹاپ سکیم سے زیادہ آغاز حقوق بلوچستان جیسے پیکج کی ضرورت ہے۔ ریاست جس خطرناک موڑ پر کھڑی ہے وہاں اسے کثیر الجہتی اقدامات کی ضرورت ہے مگر اس سب سے پہلے ریاست کو انکار کی کیفیت سے نکلنا ہو گا۔ دلوں اور ذہنوں کو جیتنے کی کوئی ترکیب لگانا پڑے گی اور وہ ترکیب صرف سیاست کے رستے ہی نکل سکتی ہے۔

Back to top button