دہشت گردی کے ملزم کی امریکا حوالگی کیلئے راہ ہموار

اسلام آباد ہائی کورٹ نے دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستانی نژاد امریکی کو امریکی حکام کے حوالے کرنے کی سخت شرائط میں نرمی کردی۔ عدالت عالیہ کے سنگل رکنی بینچ نے 3 مئی 2019 کو دوسرے ممالک کو مشتبہ افراد کی حوالگی کے عمل کو قدرے سخت کردیا تھا جس سے یہ لازمی ہوگیا تھا کہ کہ درخواست دینے والے ملک کے تفتیشی افسر کو ذاتی طور پر پاکستان میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوکر گواہی دینی ہوگی اور جرح کا سامنا کرنا ہوگا۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے بیرونی ملک کے تفتیشی افسر کی ذاتی پیشی اور جرح کی شرط کو ختم کردیا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ انکوائری مجسٹریٹ کو ہدایت کریں کہ اپنی رپورٹ پیش کریں کہ کیا دہشت گردی کی کارروائیوں کی سازش (یعنی وہ جرم جس کا اپیل کنندہ نمبر 2 پر الزام ہے) حوالگی کا جرم ہے تاکہ 1972 کے ایکٹ کی دفعات کو لاگو کی جاسکیں۔
امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی طرف سے کی گئی تحقیقات کے مطابق طلحہ ہارون اپریل 2016 میں پاکستان میں تھے اور وہیں سے اس نے نیویارک شہر میں متعدد دہشت گرد حملوں کا منصوبہ بنایا تھا۔ ایف بی آئی نے دعوی کیا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ (داعش) گروپ کی مدد سے وہ جون 2016 کے میں نیو یارک شہر میں پیرس طرز کے حملے کرنا چاہتا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مشتبہ شخص نے ‘نیو یارک شہر میں دہشت گرد حملوں کےلیے اپنے منصوبے کے متعدد ممکنہ اہداف کی نشاندہی کی تھی’، ان میں سے ایک ہدف نیو یارک سٹی سب وے جب کہ دیگر میں ٹائمز اسکوائر اور ایک کنسرٹ ہال تھا۔
واضح رہے کہ 13 نومبر 2015 کو ایک فٹ بال میچ کے دوران دہشت گردوں نے فرانس کے شہر پیرس میں سلسلہ وار حملوں کا آغاز کیا تھا۔
اس کے بعد فائرنگ اور ریستورانٹ، تھیٹر اور کنسرٹ ہال میں خودکش بم دھماکےہوئے تھے جس میں کم از کم 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ایف بی آئی نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ طلحہ ہارون داعش میں شمولیت سے قبل طالبان سے وابستہ تھا۔ پاکستان میں ایک انکوائری مجسٹریٹ نے 16 جنوری 2017 کو اپنی رپورٹ میں حوالگی ایکٹ 1972 کی دفعات کے تحت اس کو امریکا کے حولے کرنے کا کہا تھا۔
ملزم کے والد کے وکیل ادریس اشراف نے عدالت سے استدلال کیا تھا کہ اپیل کنندہ نمبر 2 کی حوالگی کی درخواست کی حمایت میں انکوائری مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیے جانے والے ثبوت ناقابل قبول ہیں۔
اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ اٹارنی اور تفتیشی افسر کے حلف نامے مکمل طور پر ایک نامعلوم شریک سازشی، امریکہ میں نامعلوم خفیہ ایجنٹ، اور اپیل کنندہ نمبر 2 کے درمیان رابطوں پر مبنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حوالگی کی درخواست کی حمایت میں دائر حلف ناموں میں کہا گیا ہے کہ خفیہ ایجنٹ کے ذریعہ ان کو دی جانے والی معلومات کی بنیاد پر حلف نامے جمع کرائے گئے ہیں۔ اس طرح کی معلومات فطرتاً سنی سنائی ہیں اور حوالگی کے احکامات کی بنیاد نہیں بن سکتی ہیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے استدلال کیا کہ انکوائری مجسٹریٹ کی رپورٹ جس میں مشتبہ شخص کی حوالگی کا بتایا گیا ہے، کسی قانونی کمزوری کا شکار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزم نے امریکہ میں دہشت گردی کی وارداتوں کی سازش کی تھی اور حلف ناموں کی شکل میں ریکارڈ پر کافی ثبوت پیش کیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں خفیہ ایجنٹ کے ساتھ رابطے میں مشتبہ شخص نے امریکا میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے منصوبے کا انکشاف کیا تھا۔