کیا مذاکرات ختم کرنے کے بعد PTI کو ریلیف ملنے کا کوئی امکان ہے؟

پی ٹی آئی کی جانب سے جوڈیشل کی بجائے پارلیمانی کمیشن بنانے کی حکومتی آفر مسترد کرنے کے بعد مذاکراتی عمل اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ حکومت نے سخت گیر یوتھیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے تحریک انصاف سے مذاکرات کیلئے قائم کمیٹی کو ہی تحلیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کے بعد جہاں پی ٹی آئی کو ریلیف کی فراہمی کی راہیں مسدود ہو گئی ہیں وہیں مذاکراتی عمل کا چیپٹر بھی مکمل طور پر بند ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کے روز پاکستان تحریک انصاف کو ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی دعوت دی تھی۔وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہاؤس کمیٹی میں پی ٹی آئی کے مطالبات پر بات چیت کی جا سکتی ہے۔ ’یہ آئیں، بیٹھیں، ہم اب بھی ہاؤس کمیٹی کی میٹنگ اور مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے جو 2018ء اور فروری 2024ء کے انتخابات سمیت 2014 کے دھرنے کے معاملات کا بھی جائزہ لے اور حقائق سامنے لائے۔تاہم وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے مذاکرات کے عمل میں تعطل کے دو روز بعد دی گئی دعوت کو پی ٹی نے مسترد کر دیا۔پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا حکومت کے خلاف ہماری چارج شیٹ بہت لمبی ہے‘ وزیراعظم کی آفر کو قبول نہیں کیا جاسکتا‘ وزیر اعظم کا بیان ہمارے مطالبات سے ہٹ کر ہے‘ہم نے اسیران کی رہائی پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے، ہم نے مینڈیٹ کی تو ابھی بات بھی نہیں کی ہے‘ وزیراعظم کی باتیں غیر متعلقہ ہیں۔ دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کی آفر کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں‘ وزیراعظم نے بہت دیر کردی ‘انہیں اسکرپٹ تاخیر سے ملاہے ‘پی ٹی آئی اب اپوزیشن جماعتوں سے ملکر تحریک چلائے گی ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات بارےسخت گیر موقف اپنانے کے بعد توقع ہے کہ آج پی ٹی آئی سے مذاکرات کیلئے قائم حکومتی کمیٹی تحلیل ہو جائے گی‘ کیونکہ پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات ختم کرنے کے باوجود ا سپیکر نے 31 جنوری تک مذاکراتی کمیٹی بحال رکھنے کا اعلان کیا تھا لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے وزیر اعظم کی مذاکرات کی پیشکش مسترد کرنے کے بعد مذاکراتی کمیٹی برقرار رکھنے کا جواز ختم ہو گیا ہے۔ یوتھیے رہنماؤں کی غیر سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے جہاں پی ٹی آئی کو ریلیف کی فراہمی کا ایک اور دروازہ بند ہو گیا ہے۔وہیں مبصرین مذاکراتی عمل سے نکلنے کے پی ٹی آئی کے فیصلے کو ہدف تنقید بناتے نظر آتے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پی ٹی آئی نے دوبارہ جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کر کے اپنے پاوں پر کلہاڑی مار لی ہے۔ اب نہ تو وہ سڑکوں پر نکلنے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ ہی وہ کسی اور طریقے سے مزید دباو ڈال کر اپنے مطالبات منوانے سکتے ہیں کیونکہ وہ اپنے تمام پتے کھیل چکے ہیں اور انھیں ہمیشہ ہی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کواب بھی سمجھ لینا چاہیے کہ مذاکرات سے بہتر راستہ اور کوئی نہیں ہوتا۔ اس وقت صرف مذاکرات کے ذریعے ہی وہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور اپنی جماعت کیلئے ریلیف حاصل کر سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی اپنی مرضی کے ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنوانے کی خواہشمند ہے اسی لئے انھوں نے حکومت کی پارلیمانی کمیشن بنانے کی پیشکش کو مسترد کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ وزیراعظم کی پارلیمانی کمیشن بنانے کی پیشکش سے لگتا ہے کہ حکومت مذاکرات کرنا چاہتی ہے، پی ٹی آئی کو بھی چاہیے کہ وہ مذاکرات کے اس عمل کا حصہ بنے کیونکہ جو بھی راستہ نکلنا ہے وہ مذاکرات کے ذریعے ہی نکلنا ہے، پارلیمانی کمیشن کی تشکیل کا عندیہ دے کر حکومت نے ایک اچھی پیشکش ہے۔ اس سے بات چیت کو آگے بڑھایاجا سکتا ہے۔
سینئر صحافی سلمان غنی کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ اجلاس کے ذریعے پھر سے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت قومی ضرورت کے احساس کیساتھ جمہوری و سیاسی طرزعمل کی عکاس ہے کیونکہ جمہوری سیاست میں ڈائیلاگ کے ذریعے ہی قومی ایشوز اور متنازعہ معاملات کا حل نکال کر بحرانی کیفیت سے نجات کے ساتھ آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ سلمان غنی کے مطابق آج کی صورتحال میں مذاکراتی عمل صرف آپس کے اختلافات کے خاتمہ کیلئے ہی نہیں بلکہ ملک میں سیاسی استحکام کیلئے بھی ضروری ہیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کے اختلافات کا بڑا نقصان ملک کو اٹھانا پڑ رہا ہے ۔
میڈیا مخالف قانون کے نفاذ کی وجہ مریم نواز ہیں یا عمران خان ؟
سلمان غنی کا مزید کہنا ہے کہ جہاں تک سیاسی قوتوں میں مذاکراتی عمل آگے نہ بڑھ پانے کا سوال ہے تو یہ سیاستدانوں کی ناکامی ہے دنیا کی سیاسی تاریخ میں سیاستدان باہم ملکر مسائل کا حل نکالتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سیاستدانوں کی بڑی خوبی ہی یہی ہوتی ہے کہ خواہ کتنا بھی گھمبیر مسئلہ ہو سیاستدان سرجوڑ کر اس کا حل نکال لیتے ہیں حالیہ مذاکراتی عمل کا جائزہ لیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ ان مذاکراتی عمل کی محرک خود پی ٹی آئی تھی لیکن جس عجلت سے اس نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور بغیر حکومت کا جواب سنے اور دیکھے چوتھے اجلاس میں بیٹھنے سے انکار کر دیا وہ ہر حوالے سے حیران کن تھا ۔ ایسے لگتا تھا کہ سیاسی فریق باہمی اختلافات کی نوعیت اور انکے حل کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔پی ٹی آئی کے طرز عمل سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ وہ مذاکراتی عمل کو قومی ایشوز سے منسلک کرنے کی بجائے اپنے مطالبات تک محدود کرنا چاہتی ہے جس کا خمیازہ بھی اب پی ٹی آئی کو ہی بھگتنا پڑے گا۔