کیا اب آئی ایس آئی عمران خان کو بچانے نہیں آئے گی؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ 2022 وزیراعظم عمران خان کے لیے مشکلات اور پریشانیوں کا سال ثابت ہونے جا رہا ہے۔ انہیں اپنی پارٹی کو بیرون ملک سے ملنے والے فنڈز میں بے ضابطگیوں پر الیکشن کمیشن کی تحقیقات کا بھی سامنا ہے۔ یہ کیس عمران کے لیے ایک ٹائم بم کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے فارن فنڈنگ کیس انکے لئے واحد سر درد ثابت نہیں ہو گا۔ بعض اطلاعات کے مطابق پاکستان کی طاقتور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے نئے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم اپنے ادارے کے لئے عقب نشینی کی پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو یقینا عمران خان کے لیے ایک بری خبر ہے کیونکہ اگر آئی ایس آئی غیر جانبدار رہتی ہے تو ان کے لیے پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کو شکست دینا مشکل ہو جائے گا، جہاں انہیں بہت معمولی اکثریت حاصل ہے۔ حامد میر یاد دلاتے ہیں کہ عمران خان نے پچھلے سال پارلیمنٹ میں اپنی پارٹی کا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے آئی ایس آئی کو استعمال کیا جس پر بہت ہنگامہ ہوا تھا، لیکن اب انہیں یہ سپورٹ ملتی مشکل نظر آتی ہے۔

معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان نے ہمیشہ خود کو پاکستان کا نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے اکثر یہ دعویٰ کیا ہے کہ کوئی ملک صرف اسی صورت میں بہت زیادہ قرضہ لیتا ہے جب اس کے لیڈر بدعنوان ہوں۔ عوام کو آج بھی یاد ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران کہا کرتے تھے کہ وہ قرض مانگنے کے بجائے خودکشی کرنے کو ترجیح دیں گے۔ لیکن 2018 میں وزیر اعظم بننے کے بعد سے انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے تین سال میں قرض لینے کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اب ان کے مخالفین سختی سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں اور اپنی زندگی کا خاتمہ کریں کیونکہ انہوں نے قرضے لیکر پاکستان کی مالی خود مختاری کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے حوالے کر دیا ہے۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ عمران خان نے آئی ایم ایف کے ایک سابق اہلکار رضا باقر کو سٹیٹ بینک کا سربراہ مقرر کیا، اور اب آئی ایم ایف نے مرکزی بینک پر پاکستانی حکومت کے کنٹرول کو بھی بڑی حد تک ختم کر دیا ہے۔ بعض ماہرین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ایسے میں سوال یہ یے کہ کیا عمران پاکستان کو معاشی تباہی سے بچا سکتے ہیں یا 2023 کے اگلے الیکشن سے پہلے ان کی اپنی حکومت گر جائے گی؟

بقول حامد میر، کچھ عرصہ پہلے تک، عمران خان ملکی تاریخ کے خوش قسمت ترین وزیر اعظم سمجھے جاتے تھے۔ اپنے بیشتر پیشرو حکمرانوں کے برعکس، انہیں کبھی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اپوزیشن کمزور اور منقسم ہو چکی تھی۔ عمران نے تین سال تک ہموار پانیوں پر اپنے اقتدار کی کشتی چلانے سے لطف اٹھایا ہے۔ تاہم اب ان کی اپنی سیاسی بقا خطرے میں ہے۔

انخے لیے اصل مصیبت ستمبر 2021 میں شروع ہوئی جب ان کی پارٹی فوجی رہائشی علاقوں یعنی کنٹونمنٹ ایریا میں ہونے والے انتخابات میں زبردست شکست کھا گئی۔ اس شکست نے ظاہر کیا کہ اب انہیں مسلح افواج میں وسیع مقبولیت حاصل نہیں رہی۔ اس کے بعد دسمبر 2021 میں افغان سرحد کے ساتھ واقع خیبر پختونخوا میں ایک اور بلدیاتی الیکشن ہوئے۔ عمران کی تحریک انصاف 2013 سے اس صوبے میں حکومت کر رہی ہے۔ پھر بھی اس الیکشن میں اسے صوبے کے تقریباً تمام اہم شہروں میں شکست ہوئی۔ اس سے عمران خان گھبرا گے۔ شکست کے پیچھے اصل وجوہات سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے انہوں نے پارٹی کی تنظیم کو تحلیل کر دیا۔ پارٹی عہدوں پر نئی نامزدگیوں سے پارٹی کارکنوں میں غم و غصہ پیدا ہوا ہے جو پہلے ہی پارٹی لیڈروں کے درمیان جھگڑوں سے مایوس ہو چکے تھے۔

بقول حامد میر، عمران کا خیال ہے کہ انکی جماعت خیبر پختونخوا میں امیدواروں کے ناقص چناؤ کی وجہ سے بلدیاتی انتخاب ہاری۔ لیکن ان کے کچھ قریبی ساتھی ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہ افراد بڑھتی ہوئی مہنگائی کو حالیہ شکست کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ عمران نے پٹرول کی قیمتوں میں زبردست اضافے کے ساتھ 2022 کا برس شروع کیا ہے، ملکی تاریخ میں پٹرول کی قیمت اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ عام پاکستانیوں کا پہلے ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ہاتھوں ناک میں دم ہے۔ عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان ”دنیا کے سب سے سستے ممالک“ میں سے ایک ہے یعنی مبینہ طور پر پاکستان میں زندگی گزارنے کی قیمت کم ہے۔ درحقیقت پاکستان کو جنوبی ایشیا میں مہنگائی کی سب سے زیادہ شرح کا سامنا ہے۔ پاکستانی روپے نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں گراوٹ کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ 2018 میں عمران خان کو ووٹ دینے والوں کی بڑی تعداد اب ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ پچھلے تین سال میں چار وزرائے خزانہ اور چھ مالیاتی سیکرٹری تبدیل کر چکے ہیں۔ عمران خان نے ہمیشہ ملک کے معاشی مسائل کے لیے پچھلی حکومتوں کی بدعنوانی کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ لیکن یہ عذر ختم ہو گیا ہے۔ ان کی اپنی حکومت کرپشن پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔

اسلام آباد ہراسانی کیس: کیا لڑکی 1 کروڑ لیکر پیچھے ہٹ گئی

حامد۔میر کہتے ہیں کہ عمران خان کی خارجہ پالیسی بھی ناکامی سے دوچار ہے۔ انہوں نے سقوط کابل کے فوراً بعد افغان طالبان کو گلے لگا لیا۔ بعد ازاں اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کا خصوصی اجلاس منعقد کر کے طالبان حکومت کی مدد کرنے کی کوشش کی۔ لیکن طالبان اسلام آباد کی بات پر کان دھرنے کے بجائے انتہائی متکبرانہ انداز میں پاکستان کو للکار رہے ہیں۔ طالبان نے نہ صرف پاکستانی فوج کی سرحد پر باڑ لگانے کی کوششوں میں مداخلت کی ہے بلکہ اس نے کچھ جگہوں پر پاکستانی فوج کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ بھی کیا ہے۔ پاکستان نے کابل میں نئی حکومت کو پاکستانی طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ اب پاکستانی فوج اور طالبان سرحدی علاقوں میں آمنے سامنے ہیں اور ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ عمران خان افغان طالبان کی حمایت کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں طالبان کے حامی عناصر عمران خان کی حمایت نہیں کر رہے۔ خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت کو حال ہی میں طالبان کی حامی جماعت جمعیت علمائے اسلام (JUI۔ F) نے شکست دی۔

حامد میر کہتے ہیں کہ جے یو آئی۔ ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سیاست میں فوج کی مداخلت کے سخت ناقد رہے ہیں۔ لیکن اب مولانا فضل الرحمان نے مجھے بتایا ہے کہ خیبر پختونخوا الیکشن میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار رہی۔ بعض اطلاعات کے مطابق آئی ایس آئی کے نئے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم اپنے ادارے کو غیر سیاسی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ عمران خان کے لیے بری خبر ہے۔ اگر آئی ایس آئی غیر جانبدار رہتی ہے تو عمران خان کے لیے پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کو شکست دینا مشکل ہو جائے گا، جہاں انہیں بہت معمولی اکثریت حاصل ہے۔

Back to top button