عدلیہ کو سر بازار رسوا کرنے والے نوسربازچیف جسٹس کون؟

طاقت اور اختیار کے بیچ اصل امتحان ظرف کا ہے۔ اختیار ظرف کے تابع ہو تو طاقت سرنگوں رہتی ہے۔ نو مارچ 2007 کی خوشگوار دوپہر طاقت نے اختیار کو چیلنج کیا اور ظرف کہیں توازن کھو گیا۔ یہ شام جسٹس افتخار چوہدری اور جنرل مشرف کے طویل دورِ اقتدار کے زوال سے موسوم ہے۔نو مارچ کے بعد عدالتی تحریک کا آغاز اور پھر لامحدود عدالتی اختیار کے استعمال یعنی از خود نوٹس کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کا شاخسانہ عدلیہ، انتظامیہ چپقلش بنی جبکہ جنرل مشرف کے دور سے اُکتائی اور ناکامی کا بوجھ گلے سے اتار پھینکنے کو تیار اسٹیبلشمنٹ نے بھی عدالتی تحریک کو غنیمت جانا، سیاسی جماعتیں عوام اور میڈیا کے دباؤ میں معزول ججوں کے پیچھے چھپتی دکھائی دیں اور یوں ایک ایسے دور کا آغاز ہوا جس کا انجام دیکھنے کو نہیں مل رہا۔

ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی عاصمہ شیرازی نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کیا ہے۔ عاصمہ شیرازی کا مزید کہنا ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری ’عوامی چیف جسٹس‘ کہلانے لگے اور دانشوروں نے بظاہر دو طاقتوروں کے تنازعے کو یوکرین کی ایک تحریک ’اورنج انقلاب‘ کی طرح قرار دے کر تقویت بخشی۔ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ نے مشرف مخالف عوامی غم اور غصے کو اظہار کا رستہ اور اپنے اختیار کے دوبارہ حصول کاا ہم ذریعہ بنایا۔

عاصمہ شیرازی کے بقول جسٹس افتخار چوہدری کا دور عدالتی ہیڈ لائنز کا دور تھا۔ پیپلز پارٹی کی کمزور حکومت اور فیصلے جسٹس چوہدری کی عدالت کی زینت بنتے رہے۔ از خود نوٹس کے دور میں ایک طرف ترکی کی کمپنی سے رینٹل پاور معاہدوں اور ریکوڈک کی بین الاقومی ڈیلز سے متعلق متنازع فیصلے ہوئے جس کا ذکر قاضی فائز عیسیٰ نے گذشتہ روز پہلے تاریخی فُل کورٹ اجلاس میں بھی کیا تو دوسری جانب ایک اداکارہ کے پرس سے شراب کی بوتل کی برآمدگی جیسے نوٹسز بھی لیے گئے۔جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں از خود نوٹسز کی تعداد اُناسی رہی جو اب تک آئین کے آرٹیکل 184 تین کے تحت لیے جانے والے ازخود نوٹسز کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ جسٹس چوہدری کے بعد یہ اختیار میاں ثاقب نثار نے سب سے زیادہ 47 مرتبہ استعمال کیا۔سیاسی فیصلے ایک طرف، کے پی ایل آئی جیسے متنازع نوٹسز، عدالتوں اور سیاسی رہنما کے دوران قید جیل میں چھاپوں تک کے معاملات پر اختیارات کا استعمال کیا گیا۔

عاصمہ شیرازی کے مطابق پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں ایک طرف ہزاروں مقدمات التوا کا شکار رہے تو دوسری جانب عدالت عظمیٰ میں سموسے تک کی قیمتوں کو ریگولیٹ بھی کیا گیا۔ عدالتیں پکوڑے بیچنے والے اخباروں کا ایندھن بنتی رہیں اور انصاف سر بازار رُسوا ہوا۔عاصمہ شیرازی کا مزید کہنا ہے کہ بندیال دور میں ازخود نوٹس اور بنچز کی تشکیل کا اختیار جس طرح استعمال ہوا اُس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ عدالت سیاسی مقدمات بھگتاتی رہی اور مفاد عامہ کے نام پر مخصوص مقاصد کا حصول منشا قرار پاتا رہا۔

اب جب گذشتہ حکومت نے اس اختیار کو ریگولیٹ کیا تو مفادات کے ٹکراؤ کی عجب تصویر نظر آئی۔ بہرحال قاضی فائز عیسیٰ نے پہلی ہی سماعت اپنے اختیار کو ختم کرنے لیے رکھی اور اسے ٹی وی پر باقعدہ لائیو نشر کرنے کےیاحکامات بھی دے ڈالے۔ مگر ذرا ٹھہریے جناب چیف جسٹس صاحب! یہ براہ راست نشریات کچھ خوفزدہ سی کر رہا ہے کہ کہیں آپ ایک اختیار واپس کریں اور عوامی پذیرائی کا اختیار اپنے ہاتھ میں نہ لے لیں۔ جناب یہ عوام پہلے ہی ڈری ہوئی ہے لہٰذا یقین ہے کہ آپ ٹی وی شائقین کے لیے روزانہ کی بنیادوں پر عدالتی لطف کے سامان کا بندوبست نہیں کریں گے۔

عاصمہ شیرازی کا مزید کہنا ہے کہ کون سے مقدمات ٹی وی پر دکھائے جائیں اور کون سے نہیں اس بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے فقط آئینی کیسز کے بارے مقدمات ٹیلی کاسٹ ہوں تو بہتر ہے، ہو سکے تو اس بارے بھی ایک کمیٹی بن جائے۔

عاصمہ شیرازی کا مزید کہنا ہے کہ جناب گُزارش ہے کہ آپ کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے، نگران ہی سہی مگر وزیراعظم بھی بلوچستان سے ہیں اور گو سینٹ کی راہداریوں میں سے لاپتہ افراد پر قانون یقینا غائب ہوا ہے مگر چیئرمین سینیٹ ہیں تو بلوچ۔ اور تو اور وزیر داخلہ بھی بلوچ ہیں لہٰذا اس حسین اتفاق کا فائدہ اُٹھایے اور ہزاروں لاپتہ افراد کا پتہ لگایے جن میں بلوچستان کے ڈاکٹر دین بلوچ، عبدالحمید زہری، تاج محمد سرپرہ، پنجاب کے مدثر نارو، عمران ریاض اور ناکردہ گُناہ کی سزا بھگتنے والے جنید حفیظ جس کا پتہ معلوم مگر نامعلوم، کو بھی انصاف فراہم کیجیے۔

عاصمہ شیرازی کا مزید کہنا ہے کہ فقط ایک بار 57 ہزار مقدمات کی فائلوں کو چھانٹ لیں، برس ہا برس گرد کی تہوں میں لپٹے مقدمات اور فائلوں کو جھاڑ کر اپنے ادارے میں سیاسی ججوں کو غیر سیاسی اور انسانی حقوق کے مقدمات سونپیں، ڈیڈ لائن مقرر کریں کہ پھانسی شُدہ ملزموں کو رہائی کا حکم اُس وقت نہ ملے جب وہ زندگی سے رہا ہو چکے ہوں۔ ایسے اقدامات کریں کہ وقت پر انصاف کو پھانسی کے پھندے سے بچایا جائے۔ جناب چیف جسٹس صاحب! آپ نے پروٹوکول سے انکار کر دیا، سلامی کے چبوترے پر بھی کھڑے نہیں ہوئے مگر آپ کے ادارے میں موجود جن لوگوں نے اپنے اختیارات کا بے دریغ استعمال کیا اُن کے احتساب کا بھی کوئی طریقہ کار اختیار کریں۔ نیشنل بینک کے ملازمین کی پنشن کا مسئلہ ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا ریفرنس سب نظریں اب آپ پر ہیں۔انتخابات قریب ہیں اور آپ نے اہم فیصلے کرنا ہیں لہٰذا سب ذمہ داری اگلے تیرہ ماہ میں آپ کے کندھوں پر رہے گی۔ کیا کریں قاضی صاحب! آپ ایک ہیں اور مقدمات کی طرح اُمیدیں ہزاروں۔ اُمید ہے اب انصاف کی راہ میں سموسہ نہیں آئے گا۔

Back to top button