آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کو دیے جانے کا امکان
باخبر حکومتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ حال ہی میں 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تشکیل کردہ پانچ رکنی آئینی بینچ کی سربراہی کے لیے جسٹس فائز عیسی کے سب سے قابل اعتماد ساتھی جسٹس امین الدین خان کا نام تقریبا فائنل کر لیا گیا ہے جس کی حتمی منظوری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں دی جائے گی۔
یاد رہے کہ نئے چیف جسٹس یحیی آفریدی نے عہدہ سنبھالتے ہی سپریم کورٹ کی تین رکنی ججز کمیٹی میں سے جسٹس امین الدین خان کو نکال کر ان کی جگہ جسٹس منیب اختر کو شامل کر لیا ہے۔اس ایکشن پر لوگ حیران تھے اور اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ جسٹس یحیی آفریدی بھی جسٹس منصور علی شاہ کے راستے پر چلنے والے ہیں۔ تاہم اب حکومتی ذرائع یہ دعوی کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کی ججز کمیٹی میں شامل تینوں سینیئر ترین جج حضرات یعنی چیف جسٹس یحیی افریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر آئینی بینچ کا حصہ نہیں ہوں گے چونکہ وہ پہلے ہی ججز کمیٹی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایسے میں سنیارٹی لسٹ پر چوتھے نمبر پر موجود جسٹس امین الدین خان آئینی بینچ کے لیے چنے جانے والے سپریم کورٹ کے ججز کی سینیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر آ جائیں گے اور اسی وجہ سے آئینی بینچ کے سربراہ بنا دیے جائیں گے۔
حکومتی حلقوں نے دعوی کیا ہے کہ اس حوالے سے کوئی ابہام موجود نہیں ہے۔ ان کا کہن ہے کہ اگلے چند روز میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تشکیل کے بعد آئینی بینچ کی تشکیل کردہ دی جائے گی۔ آئینی بینچ میں سنیارٹی کی بنیاد پر جن ججز کو شامل کیے جانے کا امکان ہے ان میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس عائشہ ملک کے نام نمایاں ہیں۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کی تین رکنی ججز کمیٹی کی اہمیت کافی کم ہو چکی ہے اور جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی اس کمیٹی میں شمولیت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
تاہم یاد رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست حکومت کےلیے خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواست کو سماعت کے لیے لینے سے انکار کر دیا تھا۔ تب جسٹس منیب اختر کمیٹی کا حصہ تھے۔ بعد میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب کو کمیٹی سے ہٹا دیا تھا اور جسٹس امین الدین کو، جو سینیارٹی میں چوتھے نمبر پر تھے، کمیٹی میں شامل کر لیا تھا۔ بعض حلقے سمجھتے ہیں کہ جسٹس عیسیٰ نے یہ اقدام کمیٹی میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے اٹھایا اور ایک ہم خیال جج کو شامل کر کے مخالف نظریات رکھنے والے جج کو ہٹا دیا۔
جسٹس منصور اور جسٹس منیب اب بھی حکومت کے لیے سر درد کیوں؟
اب نئے چیف جسٹس آفریدی نے ایک بار پھر جسٹس منیب کو سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں شامل کر دیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جسٹس منیب اختر سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے ایک ہیں جنہیں جسٹس منصور علی شاہ کی طرح عمراندار جج خیال کیا جاتا ہے۔ اس وقت ججز کمیٹی میں جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں۔ ایسے میں بحث جاری ہے کہ آیا جسٹس منیب کی بحالی محض سینیارٹی کی بنیاد پر ہوئی ہے یا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے انہیں کمیٹی میں شامل کیا ہے تاکہ وہ جسٹس منصور شاہ یا اپنے ہم خیال ججز کے ساتھ مل کر مخصوص مقدمات کا فیصلہ کر سکیں اور جسٹس امین الدین سے پیدا ہونے والی ممکنہ رکاوٹ سے بچ سکیں، جنہیں موجودہ حکومت کے لیے نرم مزاج رکھنے والے جج کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
لیکن قانونی حلقوں کا خیال ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد یہ فرق زیادہ اثرانداز نہیں ہو گا۔ ججز کمیٹی کا کردار اب عمومی مقدمات تک محدود ہو گیا ہے اور اسکی جانب سے آئینی نوعیت کے کیسوں کو نہیں سنا جا سکتا، جیسا کہ 26ویں ترمیم میں فراہم کیا گیا ہے۔ ’26ویں آئینی ترمیم کے بعد چیزیں تبدیل ہو چکی ہیں اور سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اب صرف عمومی نوعیت کے کیسوں پر فیصلہ کر سکتی ہے، آئینی نوعیت کے کیسوں پر نہیں۔‘‘