جسٹس منصور اور جسٹس منیب اب بھی حکومت کے لیے سر درد کیوں؟
26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئینی عدالت کے قیام کے بعد اب وفاقی حکومت کو عمراندار سمجھے جانے والے سینئیر ترین جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی وجہ سے آئینی بینچ کی تشکیل میں سنجیدہ مشکلات کا سامنا ہے۔
اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پہلا انتظامی قدم اٹھاتے ہوئے نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے تحت قائم کردہ کمیٹی کی تشکیل نو کر دی ہے۔ یحییٰ آفریدی نے اپنی سربراہی میں نئی تشکیل کردہ 3 رکنی کمیٹی میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو بحیثیت اراکین شامل کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی چوائس جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی سے باہر کر دیا ہے، جس کا رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سید جسٹس منصور علی شاہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے خلاف تھے لیکن اب وہ اسی کمیٹی کے رکن ہیں جس کے بعد سوالات ابھر رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ منصور علی شاہ مخالفت کرنے کے بعد اس کے رکن بن گے ہیں۔ ایسے میں حکومت کے لیے آئینی بینچ کی تشکیل میں اپنی مرضی کرنا مشکل ہو گا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج بھی 5 رکنی آئینی عدالت کا حصہ ہوں گے۔ نیب کے سابق اسپیشل پراسیکیوٹر اور ایڈووکیٹ عمران شفیق کا کہنا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کا اگر کوئی اصول ہوتا تو وہ ججز کمیٹی کا حصہ نہ بنتے جس کی وہ مخالفت کرتے رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اب واضح ہو گیا یے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ منصور شاہ کا ذاتی اور شخصی اختلاف تھا کیونکہ جب فائز چلے گے تو منصور شاہ نے اسی کمیٹی میں بیٹھنا گوارا کر لیا جس کا رکن بننے سے وہ انکاری تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ کو ایک جسٹس فائز عیسی سے ایک اختلاف یہ بھی تھا کہ دوسرے نمبر پر موجود سینئر ترین جج جسٹس منیب اختر کو جس صدارتی آرڈیننس کے تحت تین رکنی ججز کمیٹی سے نکالا گیا اس آرڈیننس کا پہلے جائزہ لیا جائے۔ لیکن قاضی فائز عیسیٰ نے اس آرڈیننس پر عملدرآمد کرتے ہوئے تیسرے سینئر جج امین الدین کو بطور ممبر شامل کر لیا تھا۔ یاد ریے کہ پہلے یہ ایکٹ تھا جس میں واضح طور پر لکھا تھا کہ چیف جسٹس کے ساتھ 2 سینئر ترین ججز کمیٹی میں شامل ہوں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اس آرڈیننس کی مخالفت کی تھی جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ایسا نہیں کیا تھا۔ انہوں نے دونوں سینئر ججز جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو کمیٹی میں شامل کر لیا یے۔
جسٹس منصور شاہ کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ چاہتے ہی یہ تھے کہ ایکٹ کے مطابق 2 سینئر ججز کو کمیٹی میں شامل کیا جائے۔ یوں جب دونوں سینئر ججز کو اس میں شامل کر لیا گیا تو انکا اعتراض بھی ختم ہو گیا۔
دوسری جانب آئینی ماہرین کے مطابق یہ ضروری نہیں ہے کہ حکومت جسٹس منصور شاہ اور جسٹس منیب اختر کو پانچ رکنی ائینی عدالت کا حصہ بنائے۔ انکے مطابق حکومت نے جو نیا جوڈیشل کمیشن بنانا ہے اس کا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ آئین اس پر فوقیت رکھتا ہے۔ ایڈووکیٹ عمران شفیق کا کہنا یے کہ آئین میں آئینی بینچ کو بنانے کا جو طریقہ کار طے کیا گیا ہے، اس کے 5 ممبران میں سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ججز شامل ہوں گے اور سینیئر ترین ججز کی کوئی پابندی نہیں۔
اس کے علاوہ بھی جو آئینی جوڈیشل کمیشن بنے گا، اس میں بھی جسٹس منصور اور جسٹس منیب دونوں ہی ہوں گے جو فیصلہ سازی میں بھی شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس اور تیسرے سینئر جج بھی موجود ہوں گے۔ اب اس میں ایک ابہام یہ ہے کہ اس میں ایک چوتھا ممبر بھی لکھا ہوا ہے جو آئینی بینچ کا سربراہ ہوگا وہ بھی ممبر ہو گا۔ یہ ممبر اس وقت تک تعینات نہیں ہو سکتا جب تک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس نہ ہو جائے۔ جب یہ اجلاس ہوگا تب ہی آئینی بینچ کا سربراہ بنے گا۔
اب ابہام یہ ہے کہ آئینی بینچ کی پیدائش تب ہونی ہے جب جوڈیشل کمیشن مکمل ہو جائے۔ جوڈیشل کمیشن پہلے مکمل کرنا ناممکن ہے کیونکہ کمیشن تب تک مکمل ہونا ناممکن ہے جب تک اس میں آئینی بینچ کا سربراہ نہ موجود ہو اور اس کا سربراہ تب لگے گا جب جوڈیشل کمیشن اجلاس کرے گا۔ ’اب یہ مرغی انڈہ پہلے دے گی، یا انڈے سے مرغی کی پیدائش ہوگی‘ یہ صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔
عمران شفیق ایڈوکیٹ کے مطابق اس میں ایک کلاز یہ بھی ہے کہ کسی نشست کے فل نہ ہونے کی وجہ سے کمیشن کی پروسیڈنگ نہیں ہوگی۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر سربراہ نہ بھی ہوا تو اجلاس میں 13 میں سے 12 ممبرز بیٹھے ہوں تو وہ سب سے پہلا کام یہی کریں گے کہ آئینی بینچ کے سربراہ کا تعین کریں گے، اس کے بعد پروسیجر مکمل ہوجائے گا۔ آئینی بینچ میں وہ لوگ آئیں گے جو جوڈیشل کمیشن لگائے گا جبکہ سپریم کورٹ کے معاملات پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ طے کرے گا۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن بنانے میں حکومت کو مشکلات ہوں گی کیونکہ 6 ووٹ تو حکومت کے پاس ہیں جبکہ 4 ووٹ خلاف ہیں۔ باقی جو 2 ووٹ رہ جاتے ہیں۔ اس میں ایک ووٹ چیف جسٹس آف پاکستان کا ہو گا جبکہ ایک وعٹ چوتھے نمبر کمیشن میں موجود جج کا ہوگا۔
ایسے میں اگر چیف جسٹس حکومت کے ساتھ جاتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ ججز کے ساتھ چلتے ہیں تو معاملات برابر ہوتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر بات کی جائے تو حکومت مشکل کے باوجود یہاں سے بھی نکل جائے گی یعنی ایک آدھ ووٹ سے حکومت کی مرضی سے ہی آئینی بینچ بنیں گے جس میں سب سے اہم کردار پاکستان بار کونسل کا نمائندہ ادا کرے گا۔