جسٹس منیر یا قاضی فائز عیسیٰ؟
تحریر : حامد میر
بشکریہ: روزنامہ جنگ
کیا آپ کو ندامت نہیں کہ آپ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے جج کی حمایت کرتے رہے جس کا آج جسٹس محمد منیر کے ساتھ موازنہ کیا جا رہا ہے؟ یہ سوال ایک ایسے دوست نے کیا تھا جس کو میں نے چند سال قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی وجہ سے ناراض کیا تھا۔ میرے یہ دوست سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بہت قریب تھے۔
ایک ملاقات میں باجوہ صاحب نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو انتہائی متعصب اور بددیانت جج قرار دیا۔ میں نے قاضی صاحب کا دفاع کیا اور کہا کہ اگر آپ اس جج کے خلاف کسی کارروائی کا سوچ رہے ہیں تو آپ کی سوچ غلط ہے۔ آرمی چیف نے پوچھا کہ کیا آپ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ذاتی طور پر جانتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ ان جج صاحب سے میری ملاقات تو دور کی بات کبھی علیک سلیک بھی نہیں ہوئی۔ یہ سن کر باجوہ صاحب نے کہا کہ آپ کو بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ وہ کس قسم کے انسان ہیں۔
مجھے سمجھ آ چکی تھی کہ فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے سے آرمی چیف ناراض ہیں اور قاضی صاحب کے خلاف نااہلی کا ریفرنس تیار کیا جا رہا تھا۔
ابھی اس ریفرنس کی کسی کو کانوں کان خبر نہ تھی مجھ سے نہ رہا گیا میں نے 15اپریل 2019ء کو روزنامہ جنگ میں’’شہدا سے غداری‘‘ کے عنوان سے کالم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف طاقتور حلقوں کے متوقع کارروائی کا بھانڈا پھوڑ دیا اور لکھا کہ قاضی فائز عیسیٰ سے لڑنے کی بجائے اس دشمن سے لڑیں جو ہمیں آپس میں لڑا کر فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے شہداء کے خون سے غداری نہ کریں۔
میں نے اس کالم میں جنرل باجوہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا کوئی حوالہ نہیں دیا تھا لیکن ان کے اور میرے ایک مشترکہ دوست نے آرمی چیف کا شکوہ مجھ تک پہنچا دیا اس دوست نے گزارش کی کہ میں آئندہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا دفاع نہ کروں میں نے اس دوست کی گزارش کو نظر انداز کرتے ہوئے 25اپریل 2019ء کو ’’آخری فتح‘‘ کے عنوان سے کالم میں ایک دفعہ پھر یہ لکھ مارا کہ عدلیہ کو فتح کرنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ آخری فتح آئین و قانون کی ہو گی۔
ابھی تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر نہیں ہوا تھا میرے کالموں سے جو کھلبلی مچی اس نے وزیر اعظم عمران خان کو بھی پریشان کر دیا ایک دن خان صاحب نے مجھے وزیر اعظم ہاؤس بلایا اور کہا کہ وہ کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہے۔ جب میں رخصت ہو رہا تھا تو خان صاحب نے سرگوشی کے انداز میں مجھے کہا کہ تم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بتا دو کہ میں ان کے خلاف کوئی سازش نہیں کر رہا۔
میں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جانتا ہوں نہ میرا ان سے رابطہ ہے، میں تو صرف اس لیے بار بار کالم لکھ رہا ہوں کہ میرے خیال میں حکومت کو عدلیہ سے محاذ آرائی نہیں کرنی چاہئے۔ میری بات سن کر وزیر اعظم کی زبان سے انگریزی میں صرف یہ لفظ نکلاUNBELIEVABLE، اسی شام جنرل باجوہ اور میرے مشترکہ دوست نے مجھ سے شکوہ کیا کہ آپ نے میری گزارش کا لحاظ نہیں کیا اور واقعی میں نے بھی زیادتی کی حد تک اس دوست کے ساتھ بدلحاظی کر دی۔
یہی دوست اب مجھ سے ڈرتے ڈرتے پوچھ رہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز کی حمایت پر آپ کو ندامت ہے یا نہیں؟ سوال سن کر میں چند لمحے خاموش رہا غلطی کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ مجھے ندامت تو نہیں البتہ افسوس ضرور ہے۔
میرا خیال تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں جو فیصلہ لکھا وہ بالکل ٹھیک تھا کیونکہ خود میں نے بھی ہمیشہ سیاست میں خفیہ اداروں کی مداخلت پر تنقید کی ہے۔ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دراصل اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا تسلسل تھا لہٰذا میں کسی جج کی نہیں بلکہ اس موقف کی حمایت کر رہا تھا جس کی وجہ سے میں نے ذاتی طور پر بہت تکالیف اٹھائیں، کمال یہ ہوا کہ وزیر اعظم عمران خان نے مجھے ذاتی طور پر یقین دلایا تھا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کوئی ریفرنس نہیں بھجوائیں گے لیکن چند دنوں بعد انہوں نے یہ ریفرنس صدر عارف علوی کو بھجوایا اور صدر نے یہ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا۔
گیارہ جون 2019ء کو روزنامہ جنگ میں ’’رسوائیوں سے ڈرتا ہوں‘‘ کے عنوان سے میں نے عمران خان کو یاد دلایا کہ آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ آپ ریفرنس نہیں بھجوائیں گے لیکن آپ نے تو ریفرنس بھجوا دیا۔ وکلاء کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑی ہو گئیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کو ڈرایا دھمکایا جانے لگا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ میری پہلی باقاعدہ ملاقات لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوران ہوئی، میں نے اپنی تقریر میں ان کے خلاف ریفرنس کی مذمت کی تو وہ حاضرین میں بیٹھ کر مجھے سن رہے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے مجھے اپنے انگریزی میں لکھے گئے مقالے کی نقل دی جو آزادی اظہار کے موضوع پر اس کانفرنس میں پڑھا گیا تھا ان کے چیف جسٹس بننے تک میں اس غلط فہمی میں رہا کہ وہ آئین و قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔
13اپریل 2023ء کو میں نے ’’سقوط آئین‘‘ کے خطرے پر کالم میں لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سقوط آئین نہیں ہونے دیں گے کیونکہ سقوط آئین ہمیں سقوط ڈھاکہ سے بڑے سانحے سے دوچار کر سکتا ہے افسوس کہ میری رائے بالکل غلط نکلی۔
26ویں ’’آئینی ترمیم‘‘ کیوں لائی گئی
چیف جسٹس بننے کے بعد قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں اپنے فیصلے کی خود ہی خلاف ورزی کی اور وہ خفیہ اداروں کی سیاست میں مداخلت کے سہولت کار بن گئے۔ وہ برے وقت میں بھاگ بھاگ کر عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کےلیے لاہور پہنچتے تھے۔ چیف جسٹس بنے تو عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کی دعوت کو رعونت سے ٹھکراتے ہوئے کہا کہ جج تقریریں نہیں کرتے بلکہ فیصلے لکھتے ہیں۔
قاضی صاحب 13ماہ چیف جسٹس رہے لیکن اس مختصر عرصے میں زیادہ وقت وہ اپنے ساتھی ججوں سے اور ساتھی جج ان سے لڑتے رہے۔ ان کے دور میں ہائی کورٹس کے ججوں کے ساتھ وہی کچھ ہوتا رہا جو عمران خان کے دور میں جنرل فیض حمید نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بننے کے بعد پاکستان کی تاریخ کے سب سے متنازعہ الیکشن کمیشن کو تحفظ فراہم کیا جس نے پاکستان کی تاریخ کا سب سے متنازعہ الیکشن کرایا۔
ان کا تعلق بلوچستان سے تھا لیکن پچھلے 13ماہ میں بلوچستان سے جتنے نوجوان لاپتہ ہوئے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور غیر علانیہ سنسر شپ میں اضافہ ہوا۔
قاضی صاحب ان معاملات پر ناصرف خاموش رہے بلکہ انہوں نے صحافیوں پر ایسے ایسے بے بنیاد الزامات لگائے جن کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا۔ ان کا اصل کردار مبارک ثانی کیس میں سامنے آیا جس میں وہ اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہوئے اور اسی کیس کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن نے آئینی عدالت نہ بننے دی تاکہ قاضی صاحب آئینی عدالت کے چیف جسٹس نہ بن جائیں، قاضی صاحب نے بطور چیف جسٹس اپنے کردار سے پنجاب پر ایک احسان فرمایا ہے۔ اب کوئی یہ نہیں کہے گا کہ پنجاب نے نظریہ ضرورت کا بانی جسٹس منیر پیدا کیا اب تو بہت سے غیر پنجابی وکلاء یہ کہہ رہے ہیں کہ جسٹس منیر سے زیادہ برا جج بلوچستان نے پیدا کیا۔