جسٹس فائز عیسیٰ آئینی چیف جسٹس بنیں گے یا سیاسی؟
جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ اور جسٹس اعجاز الاحسن کی بطور چیف جسٹس ترقی کے درمیان پڑنے والے تیرہ ماہ میں جسٹس قاضی فائز عیسی پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس بن گئ ہیں۔قاضی فائز عیسیٰ کا اب تک کا ریکارڈ شاندار رہا۔ مگر اب وہ عین پلِ صراط کے اوپر کھڑے ہیں اور انصاف کا سورج سوا نیزے پر ہے۔سٹاپ واچ کی ٹک ٹک شروع ہو چکی ہے۔ تیرہ مہینے بعد جسٹس قاضی بھی مؤرخ کے قلم کی زد میں ہوں گے۔اب فیصلہ ان کا ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا نام کیسے لکھواتے ہیں
ان خیالات کا اظہار سیینئر صحافی وسعت اللہ خان نے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کیا ہے ۔ وسعت اللہ خان کا مزید کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں جسٹس عبدالرشید سے قاضی فائز عیسی تک 29 چیف جسٹس آ چکے ہیں۔ مگر عوامی یادداشت میں چند چیف جسٹس ہی اپنا گھر کر پائے۔مثلاً جسٹس محمد منیر، جسٹس انوار الحق، جسٹس محمد حلیم، جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس جاوید اقبال، جسٹس عبد الحمید ڈوگر، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس عمر عطا بندیال کی وجہ شہرت اور عدل و انصاف پر ان کے شخصی اثرات کی قیمت یہ ملک آئندہ بہت عرصے تک چکائے گا۔دوسری جانب ایسے بھی جج آئے جنھوں نے اندھیرے لمحات میں اپنے تئیں آئین و قانون کا دیا جلائے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جیسے جسٹس اے آر کارنیلیس، حمود الرحمان، افتخار چوہدری، رانا بھگوان داس وغیرہ۔اس موقع پر جسٹس محمد رستم کیانی، جسٹس دراب پٹیل، جسٹس فخر الدین ابراہیم سمیت وہ تمام ججز جنھوں نے کسی بالائے قانون یا عبوری آئینی حکم نامے کو تسلیم نہیں کیا وہ بھی ہمارے عدالتی ورثے کا سنہرا باب ہیں اور جسٹس مولوی مشتاق حسین اور جسٹس محمد قیوم بھی ہمارے عدالتی ترکے میں پڑے ہوئے ہیں۔یہ سب نام تاریخ کے حافظے میں موجود ہیں اور تاریخ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ نہ ولن بھولتی ہے اور نہ ہی ہیرو فراموش کرتی ہے اور آئندہ نسلوں کو یہ بھی بتاتی ہے کہ تمھیں کیسا بننا ہے اور کیسا ہرگز نہیں بننا۔
وسعت اللہ خان کا مزید کہنا ہے کہ اردو قاعدے میں جج اور جرنیل لفظ جیم سے شروع ہوتے ہیں۔ پھر بھی کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم اگلے جنم میں دونوں میں سے کیا بننا پسند کرو گے تو میں ترنت کہوں گا: جنرل صاحب۔ کیونکہ جج زیادہ سے زیادہ چیف جسٹس بن سکتا ہے اور چیف جسٹس بننے کے باوجود اسے وقت پر ریٹائر ہونا پڑتا ہے۔ دیگر آئینی عہدوں کے برعکس چیف جسٹس کو مدتِ ملازمت میں ممکنہ توسیع کی سہولت حاصل نہیں۔لہذا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جو کچھ بھی کرنا یا نہیں کرنا، اکتوبر 2024 تک کے عرصے میں ہی کرنا ہے۔
وسعت اللہ خان کے بقول چیف جسٹس کے برعکس پاکستان میں اگر کوئی جنرل ریٹائر ہونے سے صرف ایک دن پہلے بھی چیف آف آرمی سٹاف تعینات ہو جائے تو اس کی مدتِ ملازمت خود بخود تین برس بڑھ جاتی ہے۔ بطور چیف آف آرمی سٹاف پہلی مدت ختم ہونے تک اسے مزید تین برس کی توسیع بھی مل سکتی ہے۔اگر آرمی چیف کو بادلِ نخواستہ ملک کے عظیم تر مفاد میں ضیا الحق یا پرویز مشرف کا کردار نبھانا پڑ جائے تو پھر قانونی طور پر صدرِ مملکت ضیا الحق، چیف آف آرمی سٹاف ضیا الحق کو نہ صرف توسیع دے سکتے ہیں بلکہ صدرِ مملکت ضیا الحق چیف آف آرمی سٹاف ضیا الحق کو جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی سربراہی کی ٹوپی بھی پہنا سکتے ہیں۔اسی روایت کو بعینہہ صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی آگے بڑھایا۔تاہم کمانڈر ان چیف یحییٰ خان کو اتنی مہلت ہی نہ ملی کہ وہ ایسا کوئی چمتکار دکھا سکتے۔البتہ ان کے پیش رو جنرل محمد ایوب خان کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ وہ بری فوج کے پہلے کمانڈر انچیف تھے جنھیں حاضر سروس ہوتے ہوئے بھی محمد علی بوگرا کی سویلین حکومت نے وزیرِ دفاع کا قلمدان سپرد کر دیا۔ یعنی کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان وزیرِ دفاع مسٹر ایوب خان کے ماتحت بن گئے۔ اور پھر ایوب خان صدر بھی بن گئے تو کمانڈر ان چیف ایوب خان اور ان کا باس وزیرِ دفاع ایوب خان صدر ایوب خان کے ماتحت ہو گئے۔
وسعت اللہ خان کا مزید کہنا ہے کہ چونکہ ایوب خان کو احساس تھا کہ وہ ان عہدوں کو بیک وقت اپنے پاس رکھ کے خود سے انصاف نہ کر سکیں گے لہذا انھوں نے کمانڈر ان چیف کا عہدہ جنرل محمد موسیٰ کے سپرد کر دیا مگر خود کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر بھی ترقی دے دی تاکہ انھیں ریٹائر تصور نہ کیا جائے۔ وہ جانتے تھے کہ ایک ریٹائرڈ فوجی صدر اور سویلین صدر کی حیثیت باعزت سینیئر سٹیزن سے زیادہ نہیں ہوتی۔
وسعت اللہ خان کے مطابق شاید یہی توسیع و تسلسل ہے کہ جس کے سبب جنرل فرینک میسروی سے لے کے جنرل عاصم منیر تک بری فوج کے سترہ سربراہ آئے اور گئے۔ ان کے مقابلے میں اسی عرصے میں لیاقت علی خان سے لے کر انوار الحق کاکڑ تک بتیس وزرائے اعظم لال مخملیں کرسی پر کچھ دیر بیٹھے اور نکل لیے۔ یعنی اس ملک نے سپہ سالاروں سے دگنے وزرائے اعظم دیکھ لیے۔