جسٹس (ر) اعجاز افضل کا اعتراف "جانبداری اور قانون کے بنیادی اصولوں کا مذاق” ہے : حسین نواز

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے پاناما کیس کے عدالتی فیصلے کےحوالے سے جسٹس ریٹائرڈ اعجاز افضل خان کے اس اعتراف کو "جانبداری اور قانون کےبنیادی اصولوں کا مذاق” قراردیا، جس میں انہوں نے جے آئی ٹی کےمنتخب کردہ افسران کو واٹس ایپ کالز کےذریعے شامل کیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے جسٹس اعجاز افضل نے اس نمائندے کےساتھ بات کی، جس میں انہوں نے اپنےفیصلے کی تفصیلات پہلی بار ریٹائرمنٹ کےبعد بیان کیں۔ انہوں نے کیس کےپس منظر،جے آئی ٹی کے ارکان کی تشکیل اور انتخاب کے بارے میں بات کی اور کیس کے فوائد و نقصانات پر روشنی ڈالی۔

مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ اگر شفافیت مطلوب تھی تو انہیں خود شفاف ہونا چاہیےتھا،جے آئی ٹی کی تشکیل میں دھاندلی اور خفیہ واٹس ایپ کالز کےذریعے کیا وجہ تھی؟ اگر انہیں جے آئی ٹی میں ایماندار اور شفاف افراد چاہیےتھے،تو وہ کھلی عدالت میں کہہ سکتےتھے اور کوئی ان کو روک نہیں سکتا تھا۔اس کے بجائے، انہوں نےپس پردہ جاکر اپنے منتخب کردہ افراد کو شامل کرایا اور اسے سرکاری ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا۔

آپ ممکنہ مداخلت کا حوالہ دے کر اپنی جانب سے سسٹم کو نظر انداز کرنےکی وجہ نہیں بناسکتے اور حکومت مداخلت کر بھی کیسےسکتی تھی جب آپ کو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہو۔بہ الفاظ دیگر یہ عدالتی اختیار اور عدالتی عمل کےغلط استعمال کا کھلا اور ناقابل معافی غلط استعمال تھاجو ایک منتخب وزیر اعظم کو ہٹانے کےلیے استعمال کیا گیا۔

جے آئی ٹی کےلیے نامزد افراد کو جسٹس ریٹائرڈ اعجاز افضل خان کےمطابق قابل رسائی اور سمجھوتہ شدہ سمجھا گیا تھا اس حوالے سے حسین نواز نے کہاکہ یہ ان افراد کے بارےمیں نہیں تھا جو ابتدائی طور پر قانونی اداروں نےنامزد کیے تھے،یہ ان کے منتخب کردہ افراد کو جے آئی ٹی میں شامل کرنے کےبارے میں تھا تاکہ جنرل فیض کے مقاصد کو پورا کیا جاسکے۔

حسین نواز نےکہا کہ اس پوری کارروائی میں جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کا اہم کردار تھا،جب وہ نیب کے ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل تھے،انہوں نے جنرل مشرف کےدور میں شریف خاندان کےخلاف مقدمات بنائے اور بعد میں انہی مقدمات کا فیصلہ کرنے کےلیے بینچ میں بیٹھے،جو خود ہی مقدمے کو کالعدم قرار دینے کےلیے کافی ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ جے آئی ٹی کی تشکیل مکمل طور پر اینٹی شریف افسران پر مشتمل تھی جو اپنے مقاصد کےحصول کےلیے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔

اقامہ کے بارے میں بھی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرےخاندان کے جلاوطنی کے بعد نواز شریف نے اپنے بیٹےکی کمپنی کےذریعے یو اے ای کی رہائش حاصل کی تھی،یہ قانونی بندوبست تھا،کرپشن نہیں۔

حسین نواز نے کہا کہ پاکستان کے اسٹیٹ بینک سے عامر عزیز ان کےاہم ساتھی اور اس وقت کےمعاون تھے اور یقیناً انہیں جے آئی ٹی کا حصہ بنایاگیا۔بلال رسول، جو کہ حماد اظہر کے کزن ہیں اور ان کے ساتھ قریب سےکام کرچکے تھے،کو بھی واٹس ایپ کال کےذریعے جے آئی ٹی میں شامل کیا گیا۔آخرکار ایجنسیز کے افسران کے علاوہ، جو ڈان لیکس کی جے آئی ٹی میں بھی شامل تھے،چیئرمین نیب کو ایک اور واٹس ایپ کال کےذریعے کہا گیاکہ وہ عرفان نعیم منگی کو نامزد کریں۔اس طرح جے آئی ٹی کو مکمل طور پر شریف مخالف افسران پر مشتمل بنایا گیا جو اپنےکٹھ پتلی کے مقاصد پورا کرنے کےلیے کسی بھی حد تک جاسکتے تھے۔

عامر عزیز،بلال عزیز اور نعیم منگی کےقریبی ذرائع نے ان کی نامزدگی میں کسی بددیانتی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئےکہاکہ وہ جے آئی ٹی میں حکومتی ہدایت کے مطابق شامل ہوئےتھے۔

حسین نواز نے کہا کہ ایک اہم قانونی اصول ہے کہ کوئی شخص اپنے ہی معاملےکا جج نہیں بن سکتا۔یہی عظمت سعید شیخ تھے جنہوں نے پہلے مشرف دور میں ان بےبنیاد مقدمات کی بنیاد رکھی اور پھر پاناما بینچ پر بیٹھ کر فیصلہ دیا! مختصراً،سب کچھ پہلے سے طےشدہ تھا۔وہ چاہتے تو بغیر سماعت کے فیصلہ سناتےاور قوم کا وقت اور پیسہ بچاتے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تعریف کرتےہوئے حسین نواز نے کہاکہ وہ پاناما ججز کے برعکس دلیر تھےاور اپنے عروج پر رہ کر حق کا راستہ چنا اور جنرل فیض کی دھمکیوں کا سامناکیا جب انہوں نے کہاکہ ہماری دو سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔

پاکستان کو خارجی فتنے کے ساتھ ساتھ داخلی فتنے پی ٹی آئی کا بھی سامنا ہے : رانا ثنا اللہ

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے بھی پاناما فیصلے کی مذمت کی۔ جب ان سے والیم  10 کے راز کے بارے میں پوچھاگیا جو آج تک افشا نہیں ہوا،تو انہوں نے کہا، "جلد 10 میں کچھ نہیں ہے۔صفر جمع صفر صفر ہی ہوتا ہے اس میں کچھ بھی نہیں ہے،انہوں نےکسی اہم مواد کے ہونے کے خیال کو مسترد کر دیا۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ جے آئی ٹی نے دستاویزات کیسے حاصل کیں؟ ان کی نااہلی کا مرکزی دستاویز محض کمپیوٹر اسکرین کا ایک اسکرین شاٹ تھا جو موبائل کیمرے سے لیاگیا تھا۔ یہ نہ تو متعلقہ حکام سےجاری ہوا تھا،نہ ہی نوٹرائزڈ تھا اور نہ ہی قانونی طور پر تسلیم کیا جا سکتا تھا، مگر اس بینچ نے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ اس پر سوالات کی بھرمار کردی۔جلد بازی میں انہیں صرف ایک بات کا احساس نہ ہوا کہ حقیقت کو جانچیں۔

حسین نواز نےکہا کہ کوئی ثبوت نہیں کہ 2006 سے تنخواہ وصول ہوئی تھی۔” انہوں نےجج پر حقائق کو غلط انداز میں پیش کرنے کا الزام عائد کیا اور مطالبہ کیا کہ اگر کوئی ایسا ثبوت ہے تو دکھایا جائے۔

مجھے یقین ہےکہ سپریم کورٹ کے سامنے کوئی ایسی دستاویز نہیں تھی جو واضح طور پر ثابت کرےکہ 2006 سے تنخواہ وصول ہو رہی تھی،انہوں نےکہا، "اس کیس میں نہ تو کوئی وصولی تھی اور نہ ہی کوئی واجب الادا رقم تھی کیونکہ کمپنی پہلے ہی غیرفعال ہو چکی تھی۔

Back to top button