نواز شریف کو نااہل کرنے والے جسٹس ریٹائرڈ اعجاز افضل کا اپنے فیصلے کا دفاع

پاناما پیپرز کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے سے متعلق جسٹس (ر) اعجاز افضل خان نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتےہوئے اس بات کی تصدیق کی ہےکہ جے آئی ٹی ارکان کا انتخاب سپریم کورٹ کے ججوں نے کیاتھا۔

جسٹس (ر) اعجاز افضل خان نے مسلم لیگ نون کی حکومت کی مداخلت کو روکنےکی خاطر واٹس ایپ کال کرنے اور تحقیقات میں فوجی حکام کو شامل کرنےکا اعتراف کیا۔

سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز بینچ کے پانچ ججوں میں سے ایک جج جسٹس (ر) اعجاز افضل خان نے پہلی مرتبہ اپنےفیصلے، کیس کے پس منظر،جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کے ارکان کے انتخاب کےحوالے سے مفصل بات چیت کی۔

یاد رہے کہ جسٹس (ر) اعجاز افضل خان مئی 2018 میں ریٹائر ہوئے اور اس وقت سے وہ میڈیا سےبات چیت سے گریز کرتے رہےہیں تاہم اب انہوں نے پانامہ پیپرز کیس پر بات کی ہے۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس کی سماعت کرنےوالے پانچ رکنی بینچ میں شامل وہ جج تھے جنہوں نے منصفانہ نتیجے پر پہنچنے کےلیے جے آئی ٹی کے ذریعے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیاتھا۔ جے آئی ٹی کےنتائج کی بنیاد پر انہیں یقین تھاکہ نواز شریف کو اپنےبیٹے سے قابل وصول تنخواہ ظاہر کرنے میں ناکامی پر نااہل قرار دیا جاناچاہیے۔

جسٹس ریٹائرڈ اعجاز افضل نے تصدیق کی کہ واقعی واٹس ایپ کال کی گئی تھی لیکن ساتھ ہی اس پراسیس کی وضاحت بھی کی۔ انہوں نے کہاکہ جب اس وقت کی حکومت نے جے آئی ٹی کےلیے نام تجویز کیےتو سپریم کورٹ کے ججوں نے محسوس کیاکہ یہ افراد قابل رسائی ہیں جس سے تحقیقات کا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔

سابق جج کا کہناتھ اکہ  ہم نےکوئی مخصوص نام نہیں مانگےتھے۔ انہوں نےاس بات پر زور دیاکہ انہوں نے صرف غیرجانبداری کو یقینی بنانے کی خاطر اچھی ساکھ کےحامل عہدیداروں کی فہرست کی درخواست کی تھی۔

انہوں نے واضح کیاکہ جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ نے ذاتی طور پر کال نہیں کی بلکہ سپریم کورٹ کےرجسٹرار کو ہدایت کی تھی کہ وہ محکموں سےکہیں کہ وہ قابل اعتماد اعلیٰ حکام کے نام تجویز کریں۔

جسٹس (ر) اعجاز افضل نےحکومتی اثرورسوخ کے بارےمیں خدشات کی نشاندہی کرتےہوئے کہا کہ ایس ای سی پی کے چیئرمین جیسے عہدیداروں کے شریف فیملی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے، جس سے ایسی حساس تحقیقات میں ان کی آزادی پر شکوک پیدا ہوتےہیں۔ریٹائرڈ جج سے جے آئی ٹی کی سکیورٹی کےلیے آئی ایس آئی حکام کی تعیناتی کےفیصلے اور دو فوجی اہلکاروں کو جے آئی ٹی کے ارکان میں شامل کرنے کےبارے میں بھی پوچھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر ان کا بیان ایک نجی ٹی وی پر بھی نشر کیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی کےلیے فوجی حکام کے انتخاب کےحوالے سے انہوں نےواضح کیا کہ ہم نے فوجی حکام کا انتخاب اس لیےکیا کہ دیگر ایجنسیوں کے افراد قابل رسائی تھے، ہم منصفانہ تحقیقات چاہتےتھے۔ جب ان سے پوچھا گیاکہ کیا یہ فوجی اہلکار ڈان لیکس کی جے آئی ٹی کا حصہ تھےتو انہوں نے جواب دیاکہ وہ نہیں جانتےلیکن کہا کہ اگر شریف خاندان کو اس معاملےپر تشویش ہوتی تو وہ شکایت درج کرواسکتے تھے۔

موسمیاتی تبدیلی کے مسائل پرسنجیدگی سے سوچنا ہوگا ،جسٹس منصورعلی شاہ

جب جسٹس اعجاز افضل سے پوچھاگیا کہ کیا پاناما پیپرز کیس کے ججز نے اس وقت کے چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کو حدیبیہ کیس میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کےلیے طلب کیاتھا تو انہوں نے تصدیق کی کہ پاناما پیپرز کیس کےدوران ججوں نے قمر زمان چوہدری کو طلب کیا تھا،میں نے ان سے کہاکہ یہ ٹھوس تحقیقات ہےلیکن تحقیقات کے دوران ہائی کورٹ نے اسے کالعدم قرار دےدیا، جو قانوناً نہیں ہونا چاہئے۔

انہوں نےکہا کہ انہوں نے قمر زمان چوہدری سے پوچھا کہ کیا وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن انہوں نے انکار کیا۔بعد ازاں جب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو چیئرمین نیب مقرر کیاگیا تو انہوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی اور اس وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس کی ذمہ داری سونپی گئی تاہم جسٹس عیسیٰ نے لمٹیشن کےباعث اپیل خارج کردی۔ جسٹس اعجاز افضل خان کاکہنا تھاکہ اپیل میں تاخیر کو نظرانداز کرنےکی ٹھوس وجوہات موجود تھیں۔

Back to top button