تیزی سے بدلتی سیاست میں کامران خان بھی تیزی سے بدلنے لگے
تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کے دوران سینئر اینکر پرسن کامران خان بھی اپنا موقف تیزی سے تبدیل کرتے نظر آتے ہیں
اور جس پارٹی کا پلڑا بھاری ہو جائے فوری اس کے حق میں بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ چند روز پہلے جب جہانگیر ترین ملک سے باہر چلے گئے اور عمران خان نے گجرات کے چوہدریوں سے ملاقات کی تو کامران خان نے اعلان کیا کہ عمران کا قلعہ ایک مرتبہ پھر مضبوط ہو چکا ہے اور انہیں اقتدار سے نکالنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔اس سے پہلے اپنے تجزیوں میں کامران خان اپنا پروگرام کپتان موقف تبدیل کرتے ہوئے ان پر سخت تنقید کر رہے تھے اور ان کے اقتدار کی کشتی کو ڈبو چکے تھے۔
تاہم اب جب اپوزیشن نے عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے نمبرز گیم پوری ہو جانے اور جلد تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کر دیا ہے تو کامران خان ایک مرتبہ پھر عمران خان پر حملہ آور ہو گے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ انہوں نے قومی سیاست پر اپنا موقف دینے کی بجائے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے عمران خان پر تنقید کی ہے۔
انکا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے مقابلے میں چین اور روس کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کی پالیسی ملکی مفاد میں نہیں ہے کیو کہ چین اور روس کبھی بھی مغرب کا نعم البدل نہیں ہوسکتے کیونکہ ہماری معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے میں اہل مغرب کا اہم ترین کردار ہے۔ دوسری جانب چین اور روس نہ تو پاکستان کے بڑے تجارتی پارٹنرز ہیں اور نہ ہی پاکستان کو مستقبل میں فراخدلانہ مراعات دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں، لہذا امریکہ کی مخالفت میں روس سے دوستی غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے کپتان کی شان میں قصیدے پڑھنے والے سینئر اینکر کامران خان نے کہا ہے کہ روس کا حالیہ دورہ وزیراعظم عمران خان کا سراسر غلط فیصلہ تھا۔ پاکستان کا امریکہ مخالف چین روس بلاک میں شامل ہونا قوم کو بھاری پڑے گا۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امریکہ مخالف چین روس بلاک میں شامل ہونا خطرناک سودا ہے، قوم خدانخواستہ اس کی بھاری قیمت چکائے گی۔ ٹویٹر پر جاری اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کامران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تمام برآمدات، ہمارا بہترین آئی ٹی مستقبل، طالبعلموں کی اعلیٰ تعلیم حتیٰ کہ کروڑوں مفت کورونا ویکسین فراہمی امریکہ اور برطانیہ سے منسلک ہیں۔ چین روس کا ان تمام معاملات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
کامران خان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کو غیر دانشمندانہ خارجہ پالیسی کی وجہ سے شدید خطرات پیدا ہو چکے ہیں۔ پہلے ہم نے اپنے تمام انڈے چین کی گود میں ڈالے، جو بچے انھیں روس کو دے آئے۔ چین روس کیمپ میں جا بیٹھنا امریکا اور یورپ سے دوری بلکہ لاتعلقی زمینی حقائق سے دور ایک غصیلہ فیصلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کتنی متوازن پالیسی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان یوکرین پر چڑھائی کے عین روز روسی صدر پوتن کی میزبانی کو انجوائے کر رہے تھے۔
انہوں نے اہنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ عمران خان نے ماسکو میں روسی فوج کے گمنام سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کیا لیکن ماضی میں گلاسکو میں ماحولیات پر عالمی سربراہی کانفرنس میں شرکت کیلئے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی پیشکش مسترد کر دی تھی۔ سینئر اینکر پرسن نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ بیجنگ میں چینی صدر شی جن پنگ سے صرف 20 منٹ کی ملاقات کو وزیر اعظم عمران خان نے اپنے لئے خوش قسمتی سمجھا لیکن بائیڈن ڈیموکریسی سمٹ میں شرکت کی دعوت کو انہوں نے رد کر دیا تھا۔ انہون نے کہا کہ سابق جرمن چانسلر انیگلا مرکل کا اقتدار ختم ہو گیا لیکن ان کی دعوت پر وہاں جانے کا خان صاحب کو وقت نہ ملا۔ کامران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور مغرب کے درمیان خلیج خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔
یقیناً یہ ناپسندیدہ بات ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے وزیراعظم عمران خان کو ٹیلی فون نہیں کیا لیکن ہم اس کا ڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے خاموش سفارتکاری سے اس کا حل ڈھونڈ سکتے تھے۔ کامران خان کا کہنا تھا کہ گذشتہ ماہ چین روس لامتناہی دوستی معاہدے کے بعد عمران خان کے یوکرین حملے کے دوران ماسکو دورے نے تصدیق کر دی کہ پاکستان مغرب مخالف چین روس بلاک کا اب کھل کر حصہ بن چکا ہے۔
انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ مجھے اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہ ہوتا اگر یہ بتایا جاتا کہ اب روس پاکستان میں گیس پائپ لائن منصوبہ آسمانی قیمت پر نہیں بلکہ سستے داموں تعمیر کرے گا۔ یا ہمیں یہ پتا چلتا کہ پاکستانی برآمدات کے 80 فیصد مراکز امریکا اور یورپ نہیں بلکہ چین اور روس ہونگے۔