KPK حکومت دریائے سندھ سے سونا کیوں نہیں نکال پا رہی؟

خیبرپختونخوا حکومت دریائے سندھ سے سونا نکالنے کے چار ٹینڈر جاری کر چکی ہے لیکن سخت شرائط کے باعث اب تک کسی کمپنی نے اس میں دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے، ٹینڈر میں سونا نکالنے کیلئے دریائے سندھ کے کسی مخصوص مقام کا کوئی ذکر نہیں، نہ ہی بتایا گیا ہے کہ کتنی مقدار میں سونا موجود ہے، ٹینڈر میں حکومت نے دریا سے نکلنے والے مجموعی سونے میں سے آدھی ملکیت کا مطالبہ کر رکھا ہے، جبکہ ٹینڈر کے حصول کیلئے کمپنی کو پیشگی کروڑوں روپے بھی ادا کرنا ہوں گے۔ماہرین کے مطابق دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا بڑی مقدار میں سونے کے ذرات لے کر آ رہے ہیں، گلگت بلتستان کا ضلع دیامر ان دنوں ایک نئے کاروبار کا مرکز بن چکا ہے۔ دریائے سندھ کی زمین کے ساتھ لوگوں نے اپنی نجی زمینیں بھی کھود ڈالی ہیں اور سو سے زائد شاور مشینیں دن رات کھدائی کر رہی ہیں اور سینکڑوں لوگ اس کاروبار سے منسلک ہیں۔ انہی میں ایک عثمان غنی بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے یہ کام گلگت اور اٹک میں ہو رہا تھا جس کی دیکھا دیکھی ہمارے لوگوں نے بھی شروع کر دیا۔ایک مشین لگانے، وہاں سے مٹی کی تہہ ہٹا کر نیچے ریت کی تہہ تک رسائی حاصل کرنا، پھر جنریٹر لگانا، یہاں پانی کا تالاب بنانا، اس سارے عمل میں ابتدائی طور پر 25 لاکھ روپے خرچ ہو جاتے ہیں ’پھر روزانہ کا خرچہ تقریباً 70 ہزار روپے آتا ہے۔ ایک مشین روزانہ 10 گرام سے 30 گرام تک سونا نکال لیتی ہے۔امریکہ ریت سے سونا چھاننے کے عمل میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ سونے کی پیداوار میں چین 455 میٹرک ٹن کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے پھر آسٹریلیا، روس، امریکہ کا نمبر آتا ہے۔ ماہر ارضیات محمد یعقوب شاہ پاکستان میں معدنیات بالخصوص دریائے سندھ میں سونے کی موجودگی پر کام کر رہے ہیں اور ایک پرائیویٹ فرم ’گلوبل مائننگ کمپنی‘ سے منسلک ہیں۔انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دریائے سندھ کی ڈیرہ اسماعیل خان تک لمبائی ایک ہزار کلومیٹر سے زائد بنتی ہے جہاں سونے کی موجودگی پائی گئی ہے۔ صرف دریائے سندھ ہی نہیں بلکہ اس میں گرنے والے معاون دریا بھی بڑی مقدار میں سونے کے ذرات لے کر آ رہے ہیں۔اس حوالے سے جب وزارت انرجی پیٹرولیم ڈویژن کے ڈائریکٹر منرلز عبدالسلام ساجد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ’’انڈپینڈنٹ اردو‘‘ کو بتایا کہ آئینی طور پر معدنیات صوبائی معاملہ ہے، صوبے ہی اس کی ترقی اور لیزنگ کے ذمہ دار ہیں۔’پاکستان میں 92 کم یاب دھاتیں موجود ہیں جن میں سے بعض سونے سے کئی گنا مہنگی ہیں، دریائے سندھ میں ان کے ذخائر موجود ہیں۔اس سال فروری میں پنجاب کے نگران وزیر حسن مراد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دریائے سندھ میں اٹک کے مقام پر دریا کی ریت میں 600 ارب روپے کا سونا موجود ہے۔ اس بیان سے پہلے بھی مقامی لوگ ریت سے سونا نکالنے کا عمل نجی طور پر جاری رکھے ہوئے تھے۔محمد یعقوب شاہ نے بتایا کہ ’آج تک سائنسی بنیادوں پر دریائے سندھ میں ایسا کوئی سروے نہیں ہوا جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ دریا کی تہہ میں سونے کی درست مقدار کیا ہے یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا کا معدنیات کا ڈیپارٹمنٹ دریائے سندھ میں سونا نکالنے کا ٹینڈر چوتھی بار شائع کر چکا ہے۔’اس نیلامی کی شرائط اتنی کڑی ہیں کہ کسی نے بھی ابھی تک دلچسپی نہیں دکھائی۔ اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جب آپ ٹینڈر دیتے ہیں تو ساتھ مکمل ڈیٹا بھی دیتے ہیں کہ اس بلاک میں اتنی چوڑائی اور لمبائی میں اتنا سونا موجود ہے۔’یہ ڈیٹا بھی آپ کے پاس نہیں ہے، بطور زر ضمانت کروڑوں روپے پیشگی طلب کیے جا رہے ہیں اور ساتھ نکلنے والے سونے میں حصہ بھی مانگا جا رہا ہے تو پھر کون ہوگا جو اس خام ڈیٹا پر اتنی بھاری سرمایہ کاری کرے گا؟پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق نے ’’انڈپینڈنٹ اردو‘‘ کو بتایا کہ جب پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ معدنی وسائل کو ترقی دے کر استعمال کر سکے تو پھر وہ لوگ جو مقامی سطح پر یہ کام کر رہے ہیں، انہیں کرنے دیا جائے کیونکہ اس سے کم از کم ان کی زندگیاں تو روزگار ملنے کی وجہ سے بدل رہی ہیں اور سونا بھی نکل رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ غیرملکی کمپنیوں کو ٹھیکے دینے کی بجائے بہتر یہی ہوگا کہ مقامی لوگوں کو کام کرنے دیا جائے۔