ریشم کس حرکت کی وجہ سے تنقید کی زد میں آگئیں؟
معروف اداکارہ ریشم سوشل میڈیا پر اپنی ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد شدید عوامی تنقید کی زد میں ہیں جس میں وہ ایک دریا کے پل پر کھڑی ہو کر پلاسٹک کے تھیلوں سے گوشت اور بریڈ نکال کر پانی میں پھینکتی ہیں اور پھر خالی شاپر بھی اسی پانی کی طرف اچھال دیتی ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں پلاسٹک شاپر بیگز کے استعمال پر کچھ برس پہلے پابندی لگا دی گئی تھی۔ تاہم ریشم نے سوشل میڈیا پر اپنے نمبر ٹانگنے کے لیے جو ویڈیو شیئر کی ہے وہ ان کے گلے پڑ گئی ہے۔ متعدد اکاؤنٹس سے شیئر ہونے والی اس ویڈیو کے ساتھ یہ تو واضح نہیں کیا گیا کہ یہ مناظر کس مقام کے اور کب کے ہیں البتہ ریشم کو خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
مختصر دورانیے کی ویڈیو میں اداکارہ ریشم اپنی گاڑی کے قریب کھڑے ہو کر نہر میں گوشت اور ڈبل روٹی ڈالتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ اس دوران وہ ایک سے زائد پلاسٹک بیگز بھی ساتھ ہی پھینکتے ہوئے دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس دوران پانی میں مچھلیاں کھانے کی طرف بڑھتی تو نظر نہیں آتیں لیکن فضا میں اڑتی ہوئی چیلیں ضرور دکھائی دیتی ہیں۔ ریشم کی ویڈیو سوشل ٹائم لائنز پر شیئر ہوئی تو متعدد صارفین نے جہاں انہیں ’آبی جانوروں کو کھانا کھلانے‘ پر سراہا وہیں کئی نے پلاسٹک تھیلوں کے معاملے میں ’غفلت برتنے‘ پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔
ریشم کس حرکت کی وجہ سے تنقید کی زد میں آگئیں؟
ایک صارف نے ٹویٹ کیا کہ ’ریشم جی، مچھلیاں کھانا کھاتی ہیں پلاسٹک کے تھیلے نہیں۔‘ ایک اور سوشل میڈیا صارفین شبانہ شوکت نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’پیاری ریشم، آبی جانوروں کو کھانا پھینکنے کے بعد پلاسٹک کے تھیلے پانی میں پھینکنے کا مطلب انکی موت ہے لہذا آئندہ ایسی حرکت سے پرہیز کیجئے گا۔ دیگر صارفین نے پلاسٹک بیگز کے نقصانات گنوائے تو ریشم کو متوجہ کیا کہ وہ جان بوجھ کر یا لاعلمی میں مچھلیوں کے ساتھ دشمنی کر رہی ہیں۔ ان تھیلوں کی وجہ سے نہر میں موجود آبی حیاتیات کو شدید نقصان ہوگا۔ شبنم حسنین نے لکھا کہ ’ریشم پانی میں گوشت اور بریڈ پھینک رہی ہیں، سینڈوچ مچھلیاں خود بنا لیں گی۔‘
پاکستانی اداکارہ کی عمر کا ذکر کرنے والوں نے لکھا کہ ’باقی باتیں چھوڑیں، ہمیں اپنے بچپن میں بھی ریشم ایسے ہی دکھائی دیتی تھیں، وہ آج بھی نہیں بدلیں۔‘ ایک اور خاتون صارف مسرت عباس نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ’معلوم نہیں یہ لوگ بوڑھے کیوں نہیں ہوتے، ہم اپنے بچپن سے ریشم کو ایسے ہی دیکھ رہے ہیں، ہمارے تو بال بھی سفید ہو گئے۔‘