کوئٹہ جانے دیں ورنہ مستونگ میں دھرنا دیں گے، خواتین کو رہاکیا جائے، اختر مینگل

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی- ایم) کےسربراہ سردار اخترمینگل نےاس عزم کا اظہار کیا ہے کہ گرفتار بلوچ خواتین کی رہائی تک پارٹی کا دھرنا جاری رہے گا۔
صوبائی حکومت کے وفد نے گزشتہ شام مستونگ میں افطار کےبعد پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کی، اس سے قبل سردار اختر مینگل اور بی این پی (ایم) کے دیگر کارکن ضلع مستونگ کےعلاقے لک پاس کے قریب ہونے والے خودکش حملے میں بال بال بچ گئے تھے۔
سردار اختر مینگل نے بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی)کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاریوں اور دھرنے پر پولیس کریک ڈاؤن کے خلاف وڈھ سےکوئٹہ تک ’لانگ مارچ‘ کا اعلان کیا تھا، تاہم کوئٹہ انتظامیہ نے بی این پی (ایم) کو اپنے جلسے کی اجازت دینے سےانکار کر دیا ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں سےتعلق رکھنے والے مارچ کرنے والوں اور موٹر سائیکل سواروں نے جمعہ کی صبح تقریباً 9 بجے اختر مینگل کے آبائی قصبے وڈھ سےکوئٹہ کا سفر شروع کیا تھا، ہفتے کے روز بی این پی (ایم) نے دعویٰ کیا کہ مستونگ کے قریب پولیس کی کارروائی کےدوران اس کے 250 سے زائد کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
ہفتہ کی شام ظہور احمد بلیدی، بخت محمد کاکڑ اور سردار نور احمد بنگلزئی پر مشتمل صوبائی حکومت کے وفد نے مینگل اور بی این پی (ایم) کےدیگر رہنماؤں سے مستونگ میں پارٹی کے دھرنے کے مقام پر ملاقات کی۔
اخترمینگل کےلانگ مارچ پرحملہ کرنیوالوں کوکیفرکردارتک پہنچایاجائے،بلاول بھٹو
دھرنے کےشرکا کی جانب سےاختر مینگل، نواب محمد خان شاہوانی، ساجد ترین اور دیگر رہنماؤں نے مذاکرات میں شرکت کی۔
بات چیت کےبعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ حکومتی وفد نے ہم سے تعاون اور راستہ تلاش کرنے کےبارے میں بات کی، ہم نے ان سے کہا کہ وہ کوئی راستہ تلاش کریں اور ہمیں کوئٹہ جانے دیں۔
سردار اخترمینگل نے کہا کہ حکومتی وفد نے ہم سے پوچھا کہ کیا ہم ریلی نکالنا چاہتے ہیں جس پر ہم نے کہا کہ اگر ہم ریلی نکالتےتو خضدار میں نکالتے۔
اختر مینگل نےکہا کہ ہم نے حکومت کو بتایا کہ ہمارا واحد مطالبہ خواتین کو رہا کرنا ہے، ہم نے ان سے کہا کہ ہم اپنی خواتین کی رہائی کامطالبہ کرتے ہوئے کوئٹہ کی طرف مارچ کریں گے۔
اختر مینگل نے کہا کہ اگرحکومت نے انہیں کوئٹہ جانے کی اجازت نہ دی تو وہ مستونگ میں دھرنا دیں گے، یہ دھرنا اس وقت تک جاری رہےگاجب تک ہماری خواتین کو رہا نہیں کر دیا جاتا۔
اگرچہ وفد نے افطار کےبعد بی این پی قیادت سے دوبارہ ملاقات کا فیصلہ کیا لیکن ایسا نہیں ہوا۔