کپتان دور میں عام آدمی کا بجلی کا بل کتنے گنا بڑھ گیا؟

شوگر سٹہ مافیا کا الزام: ایف آئی اے نے 8 گروپس کے اعلیٰ عہدیداروں کو طلب کرلیاhttps://www.youtube.com/watch?v=g63Cy7VR4iI

عمران خان کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد سے خوشحال صارفین کے علاوہ ماہانہ 300 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے غریب صارفین کے بلوں میں بھی ہوشربا اضافہ کر دیا ہے جس سے ان کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں عام آدمی کے بجلی کے بل میں ہونے والا ریکارڈ توڑ اضافہ پہلے کبھی کسی حکومت کے دور میں نہیں ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کے قرضے اور اس سے جڑی ہوئی شرائط ہیں جن کا بوجھ حکومت مسلسل عام آدمی پر ڈال رہی ہے۔

اس حقیقت کو جاننے سے پہلے کہ تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کے بعد سے لے کر فروری 2021 تک عام آدمی کے بجلی کے بل میں کتنا اور کتنی بار اضافہ ہوا ہے، یہ بات ذہن نشین کرنی ضروری ہے کہ پاکستان میں بجلی استعمال کرنے والے زیادہ تعداد ایسے صارفین کی ہے جو ماہانہ 300 تک یونٹ استعمال کرتی ہے۔ پاکستان میں بجلی کے نگران ادارے، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی، (نیپرا) کے اعدادوشمار کے مطابق تقریباً تین کروڑ بجلی صارفین میں سے دو کروڑ سے زائد صارفین کی تعداد ایسی ہے جو ہر ماہ 300 یونٹ تک یا اس سے کم بجلی استعمال کرتی ہے۔ ایسے صارفین جو 300 یونٹ تک ماہانہ بجلی کے یونٹ استعمال کرتے ہیں وہ عام صارفین کہلاتے ہیں، جنھیں بجلی کے نرخوں میں خاص رعایت حاصل ہوتی تھی۔ ایسے صارفین سنگل فیز میٹر استعمال کرتے ہیں، جس میں وہ گرمیوں میں گھر میں ایک ایئرکنڈیشنر چلانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ ایئر کولر استعمال کرتے ہیں۔ ان صارفین کی تعداد تو 70 فیصد سے بھی زیادہ ہے مگر 86 فیصد بجلی میں سے یہ صارفین 31 فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں۔ باقی 51 فیصد صارفین وہ ہیں جو ماہانہ 300 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرتے ہیں۔

یوں کسی بھی حکومت کے لیے یہ ایک نسبتاً آسان کام ہوتا ہے کہ وہ اس کم آمدنی والے طبقے پر زیادہ بوجھ نہ ڈالے اور انھیں مختلف طرح کے سرچارجز سے بھی بچائے رکھے جو لگنے کے بعد بجلی کا بل تقریبا 45 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اب سے پہلے تو یہ بوجھ ان لوگوں پر ڈالا جارہا تھا جنہیں خوشحال طبقہ کہا جاتا ہے جنکا تعلق اپر مڈل کلاس سے ہوتا ہے، مگر اب عام صارف کے لیے بھی صورتحال اتنی آسان نہیں رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے حالیہ قرضہ لیتے وقت کپتان حکومت نے اس بات پر بھی اتفاق کرلیا ہے کہ 300 یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والے طبقے پر اب سرچارج کی چھوٹ واپس لے لی جائے گی۔ ایسا پہلے کبھی کسی دور حکومت میں نہیں ہوا تھا۔

جب تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو اس وقت عام صارف کے لیے بجلی فی یونٹ 10اعشاریہ دو روپے میں دستیاب تھی۔ تحریک انصاف کے دور اقتدار میں یہ نرخ بڑھ کر 12اعشاریہ 15 روپے تک پہنچ گیا یعنی فی یونٹ ایک روپیہ 95 پیسے کا اضافہ ہوا ہے اور عام آدمی کے لیے سر چارج کی چھوٹ واپس لینے سے اس کی قیمت میں اور بھی زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ نیپرا ترجمان ساجد اکرم کے مطابق عام صارف جو 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرتا ہے اس کا 2018 میں تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے پر ماہانہ بجلی کا بل 3060 روپے بنتا تھا جو اب بڑھ کر 3645 روپے ہو گیا ہے۔ یعنی عمران خان کی تحریک انصاف نے اقتدار میں آ کر پچھلے ڈھائی برس میں عام صارف کے لیے ماہانہ بجلی 585 روپے مہنگی کی ہے لیکن اب اسکی قیمت 300 یونٹ استعمال کرنے والوں پر سرچارج کی چھوٹ واپس ختم ہونے پر مزید بڑھ جائے گی۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ بجلی کے بل میں فیول ایڈجسٹمنٹ، سرچارج اور دیگر اضافے اس کے علاوہ ہیں۔

خیال رہے کہ 300 سے زائد یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے حکومتی نرخوں کو اس رپورٹ میں زیر بحث نہیں لایا جا رہا ہے، جو عام صارف کے نرخوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ ماہانہ 300 سے زائد یونٹ استعمال کرنے والے صارفین ایئرکنڈیشنر استعمال کرتے ہیں اور وہ تھری فیز میٹر والے صارفین کہلاتے ہیں۔ ایسے صارفین کے لیے پیک آورز کے نرخ بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ پیک آور شام کے ان اوقات کو کہا جاتا ہے جب بجلی کا استعمال کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ نے حال ہی میں بجلی کے بل پر سرچارج لگانے سے متعلق آرڈیننس کی منظوری دی ہے، جس کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوام کو بجلی کا ایک اور جھٹکا زیادہ قیمت کی صورت میں برداشت کرنا پڑے گا۔ ترجمان وزارت توانائی کے مطابق جب تک اس حوالے سے کوئی نوٹیفکیشن نہیں آ جاتا وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کن اوقات میں یہ اضافہ عوام کو برداشت کرنا ہو گا۔

بتایا جاتا ہے کہ بجلی کے نرخ میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئی وہ یقین دہانی بھی بتائی جاتی ہے جس کے تحت گردشی قرضوں کو متفقہ حد تک محدود رکھنا بھی شامل ہے۔ وزارت توانائی کے حکام کے مطابق نئے آرڈیننس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ پارلیمان کی متعلقہ کمیٹی نے اس کی منظوری دے دی تھی اور اب صرف بل قومی اسمبلی میں پیش کرنا تھا مگر حکومت نے آرڈیننس کا رستہ اختیار کیا۔

وزارت توانائی کے سینیئر حکام کے مطابق اب حکومت نے دوبارہ بجلی کے بل پر سرچارجز عائد کرنے سے متعلق شق شامل کر لی ہے اور ممکنہ طور پر ہر صارف کو اب دیامر بھاشا ڈیم کے لیے طویل عرصے تک فنڈز دینے ہوں گے کیونکہ اس ڈیم کے ساتھ جڑے کچھ تنازعات کی وجہ سے عالمی طور پر بھی اس منصوبے کے لیے قرض ملنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس منصوبے کے لیے بھی نیلم جہلم ڈیم کی طرح بجلی کے بل سے فنڈز اکھٹے کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ نیلم جہلم منصوبہ اب تکمیل کو پہنچ چکا ہے اور اس منصوبے کی تکمیل کے باوجود جو اضافی چارجز وصول کیے گئے ہیں وہ واپس کیے جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button