آصفہ بھٹو اپنے والد اور بھائی کی طاقت بنیں گی

آصفہ بھٹو زرداری کی پی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے ملتان میں باقاعدہ حکومت مخالف جلسے میں شرکت کو ملکی سیاست میں ایک خوشگوار اضافے کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
اگر آپ نے نیٹ فلیکس کی سیریز ’کراؤن‘ دیکھی ہو تو آپ کو مارگریٹ کا یہ ڈائیلاگ یقیناً یاد ہو گا کہ ’میں نائب ملکہ ہوں، جب ملکہ نہیں ہوتیں تو میں ان کے کام دیکھتی ہوں، لیکن میں خود ملکہ نہیں۔ پاکستان کے سیاسی خاندانوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ سیاسی وراثت صرف پہلی اولاد یا اولاد نرینہ ہونے کے ناطے نہیں ملتی بلکہ اس کے لیے شخصیت، اہلیت اور تدبیر کو مرکزی عمل دخل ہوتا ہے۔ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی سہادت کے بعد 2008 میں جب پیپلز پارٹی نے وفاق میں حکومت سنبھالی تو قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں سپیکر باکس سے نعرہ بلند ہوا ’زندہ ہے بی بی زندہ ہے۔‘ اس نعرے نے ایوان کا ماحول یکسر تبدیل کر دیا تھا۔ ایوان میں موجود اراکین پارلیمان خصوصاً پیپلز پارٹی کے ارکان افسردہ ہوئے اور اپنی لیڈر کو یاد کرنے لگے۔ تب سے پارٹی کے اندر اور پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اس تاثر نے قدم جمانا شروع کر دیے کہ شاید آصفہ بھٹو زرداری اپنی والدہ کی طرح سیاستدان بنیں گی یا کم از کم سیاست میں ایک اہم کردار ضرور ادا کریں گی۔
سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر آصف زرداری کی چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری اس وقت تک سماجی رابطوں کی ویب سائٹس یا عالمی فلاحی کاموں میں زیادہ سرگرم نظر آتی رہی ہیں لیکن اب انھیں باقاعدہ طور پر عوامی سیاست میں متعارف کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بظاہر اس کی وجہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری علیل ہیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری کرونا میں مبتلا اور خود کو قرنطینہ کیے ہوئے ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات ہوں یا لیاری اور لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم آصفہ بھٹو اپنے بھائی بلاول کے ساتھ سیاست میں پیش پیش نظر آئیں۔ جب آصف علی زرداری کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمات چلے تو آصفہ والد کا ہاتھ تھام کر عدالتی پیشیوں پر بھی دکھائی دیں۔ آصف زرداری سے گرفتاری کے بعد جب سوال کیا گیا کہ اگر بلاول بھی گرفتار ہو گئے تو کیا ہو گا؟ سابق صدر نے جواب دیا کہ ’بلاول گرفتار ہوئے تو پارٹی پرچم آصفہ سنبھالیں گی۔‘
کچھ عرصہ قبل جب نیب نے بلاول بھٹو زرداری کو تحقیقات کے لیے طلب کیا تھا اور ان کی گرفتاری کی قیاس آرائیاں ہونے لگیں تو بلاول نے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ وہ ’گرفتار ہوئے تو ان کی آواز آصفہ بنیں گی۔‘ اس کے علاوہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وہ بلاول اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے بیانات کو باقاعدگی کے ساتھ ری ٹویٹ کرتی ہیں اور کبھی کبھی سیاسی معاملات پر اپنے ردعمل کا بھی اظہار کرتی ہیں۔ ٹوئٹر پر ان کے 25 لاکھ فالوورز ہیں۔ خاص طور پر سول ملٹری تعلقات، سویلین اور پارلیمان کی بالادستی اور صوبائی خودمختاری پر وہ کھل کر بات کرتی ہیں۔ آصفہ بھٹو کی پیدائش 1993 میں ہوئی تھی اور اس وقت ان کے والد اسیری کی زندگی گزار رہے تھے۔ آصفہ نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی سے سیاست اور معاشرتی علوم میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی ہے جبکہ ایم ایس سی کی ڈگری گلوبل ہیلتھ اینڈ ڈیویلپمنٹ میں یونیورسٹی کالج لندن سے۔ پاکستان میں جب سرکاری سطح پر انسداد پولیو کی مہم کا آغاز ہوا تو وہ پہلی بچی تھیں جنھیں پولیو کے قطرے پلا کر اس مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس وقت ان کی والدہ بینظیر بھٹو وزیرِ اعظم تھیں۔
والدہ کے مشن کو انھوں نے اپنا فرض سمجھ کر قبول کر لیا۔ جب 2008 میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اور ان کے والد ایوان صدر پہنچے تو ’پولیو فری پاکستان‘ مہم کا آغاز ہوا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے انسداد پولیو کے لیے انھیں اس مہم کا سفیر مقرر کیا گیا۔ آج بھی وہ روٹری انٹرنیشنل کی سفیر ہیں اور صوبہ سندھ میں پولیو مہم کے انتظامات میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ آصفہ بھٹو اپنی پہچان عالمی شہری کے طور پر رکھتی ہیں اور انکو گلوبل سٹیزن فیسٹیول سے خطاب کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ وہ واحد پاکستانی ہیں جنھوں نے اس غیر سرکاری عالمی فورم سے خطاب کیا۔ غربت کے خاتمے کے لیے ستمبر 2012 میں نیویارک میں پہلا گلوبل سٹیزن فیسٹیول منعقد کیا گیا تھا۔ آصفہ بھٹو اپنی والدہ کی راہ پر چلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان کے لباس اور بات کرنے کے انداز میں بھی والدہ کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ ان کی پولیو مہم کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی ان کی جانشین کے طور پر موجود ہیں۔ نومبر 2014 میں انھوں نے آکسفورڈ یونین سے خطاب کیا تھا اور اس طرح وہ اس یونین کو خطاب کرنے والی سب سے کم عمر مقرر اور پاکستان سے دوسری مقرر بنی تھیں۔ اس سے قبل یہ اعزاز ان کی والدہ بینظیر بھٹو کو حاصل رہا ہے۔
اپنی بڑی بہن بختاور بھٹو کے برعکس آصفہ کی سیاسی اور سماجی امور میں دلچسپی زیادہ رہی ہے۔ ایک رکن اسمبلی کے بقول ان کی جانوروں کی حقوق، خواتین کی فلاح و بہبود میں زیادہ دلچسپی رہتی ہے۔ انھیں بے سہارا اور خصوصی بچوں کے ساتھ وقت گزارنا بھی پسند ہے، عید کے دنوں میں وہ ان کے لیے تحائف لے کر جاتی ہیں۔ اپنی گلوبل ہیلتھ ماسٹر کے بارے میں آصفہ کہتی ہیں کہ وہ پاکستان میں صحت کے نظام میں بہتری لانے کی خواہشمند ہیں۔ ذاتی زندگی میں انھیں کھانا پکانے اور بلیاں پالنے کا شوق ہے، یہاں تک کہ وہ گلی محلے میں پھرتی آوارہ بلیاں تک اپنے پاس لے کر رکھتی ہیں۔ بینظیر بھٹو کی جب راولپنڈی میں ہلاکت ہوئی تو اس وقت آصفہ کی عمر 14 سال تھی۔ اس کے بعد وہ اکثر اپنے والد آصف علی زرداری کے ساتھ ہی نظر آتی ہیں، پھر گڑھی خدا بخش کا جلسہ عام ہو یا اسلام آباد میں عدالتی پیشی۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ دیگر بچوں کی نسبت وہ اپنے والد سے زیادہ قریب ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر تو سرگرم ہیں لیکن روایتی میڈیا سے دور رہتی ہیں۔ گذشتہ سال آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اُن کی صحت پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ گذشتہ سال بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے سیاست کو ورثہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اپنے بھائی کی ہم آواز بنیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے نانا اور والدہ کو کھویا ان کے خاندان نے پاکستان کے لیے بہت قربانیاں دیں ہیں یہ دیکھنے کے لیے آپ کو گڑھی خدا بخش جانے کی ضرورت پڑے گی کہ میرے خاندان کے کتنے لوگوں نے اس ملک کے لیے جانیں دی ہیں۔ ’ہمارے پاس صرف یہ ہی راستہ تھا، یا تو ہم خاموش رہیں یا آگے بڑھ کر حق کے لیے آواز اٹھائیں۔ میرے نانا نے عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کو ترجیح دی، میری والدہ نے بھی یہ ہی راستہ اختیار کیا اور اب میرے بھائی بھی اپنے نانا کے مشن اور والدہ کی سوچ کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ میرے بھائی پورے پاکستان کے لیے بولتے ہیں اور میں بھی ان کے ساتھ ملک کے عوام کی آواز بنتی رہوں گی ۔‘
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سیاست کے میدان میں کچھ ذمہ داریاں انسان خود سنبھالتا ہے، اور کچھ تاریخ انسان پر ڈال دیتی ہے۔ ’یقیناً ساری پارٹی، اس کے کارکنان اور قیادت موجود ہیں، لیکن بھٹو خاندان کا نام ایک بائنڈنگ فورس ہے۔ یہ نام ایک علامت ہے اور اس علامت کی نمائندگی کے یہ ضروری تھا کہ اگر پی ڈی ایم کے جلسوں میں بلاول بھٹو شرکت نہ کر سکیں تو کوئی نہ کوئی بھٹو تو ضرور ہو جو آگے بڑھ کر پارٹی کا پرچم تھام کے۔
آصفہ بھٹو زرداری سیاسی معاملات میں بھی اپنی الگ آواز رکھتی ہیں۔ کئی موقعوں پر بلاول بھٹو اور آصف زرداری کو آصفہ بھٹو کے اعتراض یا اختلاف کی وجہ سے اپنے فیصلے تک تبدیل کرنا پڑے ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم معاملہ عرفان اللہ مروت کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا تھا۔ آصفہ نے اپنے والد کے اس فیصلے کے خلاف ٹویٹ تک کیا تھا، جس کے بعد آصف زرداری عرفان اللہ مروت کو پارٹی میں شامل کرنے کے فیصلے سے دستبردار ہو گئے تھے۔ سندھ اسمبلی میں صوبائی وزیر امداد پتافی نے جب اپوزیشن کی رکن نصرت سحر عباسی کے خلاف غیر اخلاقی ریمارکس دیے تو آصفہ بھٹو نے اپنے غصے کا اظہار کیا تھا، جس پر پارٹی قیادت نے امداد پتافی کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا۔ امداد پتافی نصرت سحر عباسی کو ایوان میں سندھی اجرک اوڑھا کر معافی مانگنے پر مجبور ہوئے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں تنظیم کی بحالی اور مضبوطی کے لیے موجودہ قیادت گذشتہ ایک دہائی سے کوشاں ہے۔ بلاول بھٹو نے تنظیم سازی کے ذریعے جبکہ ان کے والد نے لاہور کو اپنا ٹھکانہ بنا کر پارٹی کو پنجاب میں سرگرم کرنے کی باتیں کیں، لیکن بظاہر ایسا ہو نہیں سکا۔
پنجاب میں اس وقت جب مسلم لیگ ن فعال ہے اور مریم نواز اپنی سیاسی مقبولیت کے عروج پر ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کے لیے اپنے لیے سیاسی جگہ بنانا اور بھی کٹھن لگتا ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق اس وقت دونوں جماعتیں پی ڈی ایم میں ساتھ سہی لیکن برسوں سے اصل مقابلہ تو دونوں میں رہتا ہے۔ پی ڈی ایم کے حکومت مخالف جلسوں میں کراچی کے بعد ملتان میں پیپلز پارٹی نے اپنی سیاسی طاقت کا اظہار کیا ہے جہاں سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تعلق رکھتے ہیں۔
ملتان کے جلسے میں آصفہ بھٹو زرداری کی پہلی سیاسی تقریر کو پر اثر اور مسحور کن قرار دیا جا رہا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر آصفہ کا سیاسی کردار مستقبل میں بڑھتا ہے تو دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت خواتین کے ہاتھوں میں آ جائے گی۔