گوادر پورٹ کمپلیکس پر حملہ کرنے والا مجید بریگیڈ کیا چاہتا ہے؟

20 مارچ 2024 کی شام گوادر میں پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر حملے کی ذمہ داری قبول کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کارروائی اسکے مجید بریگیڈ نے سرانجام دی ہے۔ مجید بریگیڈ ماضی میں بھی پاکستان میں مختلف پراجیکٹس پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا چکا ہے۔ گوادر پورٹ اتھارٹی کمپلیکس کی انتظامیہ کے مطابق حملے کو ناکام بنا دیا گیا اور سات حملہ آور بھی مار دیے گئے۔ یہ اس برس دوسرا موقع یے کہ مجید بریگیڈ نے بلوچستان میں دہشت گردی کی بڑی کارروائی کی ہے۔ اس سے قبل 29 اور 30 جنوری 2024 کی درمیانی شب خودکش بمباروں سمیت متعدد شدت پسندوں مچھ شہر میں تھانے پر حملہ کیا تھا جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران تین خودکش بمباروں سمیت 11 دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
2011 میں تشکیل پانے والے علیحدگی پسند گروپ مجید بریگیڈ کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت آئی یے اور اس کی کمر توڑنے کے عسکری حکام کے دعوے اب تک کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں۔ 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں ہونے والے اس دھماکے کی ذمہ داری بھی مجید بریگیڈ نے ہی قبول کی تھی جس میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور تین زخمی ہو گئے تھے۔
مجید بریگیڈ اور اس کے فدائین کا نام پہلی بار تب سامنے آیا تھا جب کوئٹہ میں سردیوں کی ایک شام کو ارباب کرم خان روڈ پر ایک کار ایک گھر کے باہر آ کر رکی جس کے بعد ایک شدید دھماکہ ہوا۔ یہ گھر سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کا تھا اور یہ واقعہ 30 دسمبر 2011 کو پیش آیا تھا۔
اس حملے میں شفیق مینگل محفوط رہے جبکہ ان کے محافظوں سمیت 10 افراد ہلاک اور 23 زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی اور کہا کہ مجید بریگیڈ کی جانب سے فدائی نوجوان درویش نے یہ حملہ کیا تھا۔ اس حملے کے بعد مجید بریگیڈ کی جانب سے سات برس تک کوئی بڑا حملہ سامنے نہیں ایا لیکن پھر اگست 2018 میں بلوچستان کے سونے اور تانبے کے ذخائر والے ضلع چاغی میں تب ایک بڑا حملہ ہوا جب صدر مقام دالبندین میں ایک ٹرک سامنے سے آنے والی اس بس سے ٹکرا دیا گیا جس میں چینی انجنیئرز سوار تھے، اس حملے کے نتیجے میں تین چینی انجنیئروں سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے۔ بی ایل اے کی مجید بریگیڈ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور بتایا کہ حملہ آور کا نام ریحان تھا جو مجید بریگیڈ کے سربراہ اسلم استاد عرف اسلم اچھو کا بیٹا تھا۔
اسی سال یعنی نومبر 2018 میں کراچی میں چین کے سفارتخانے پر حملہ کیا گیا، جس میں چار حملہ آور پولیس مقابلے میں مارے گئے، اس کی ذمہ داری بھی مجید بریگیڈ نے ہی قبول کی۔ 2019 میں اس گروپ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مرکز گوادر شہر میں پی سی ہوٹل پر حملہ کیا، جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جبکہ 3 حملہ آور مارے گئے۔ مجید بریگیڈ نے اس کارروائی کو فدائی مشن قرار دیا۔
اس کے بعد اگلے سال جون 2020 میں کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا گیا جہاں چار حملہ آور مارے گئے، اس حملے کی ذمہ داری بھی مجید بریگیڈ نے ہی قبول کی۔
نوشکی اور پنجگور میں فروری 2022 میں کیے جانے والے حملوں کو مجید بریگیڈ نے فدائی حملے قرار دیا تھا۔
سال 2018 سے اب تک ایسے دس سے زیادہ حملے ہو چکے ہیں جن کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن ارمی سے وابستہ مجید بریگیڈ نے قبول کی ہے۔ اب سوال یہنہے کہ مجید بریگیڈ کہاں سے آیا؟ جب پیپلز پارٹی کے بانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی کی صوبائی حکومت کو بر طرف کیا تو مزاحمت شروع ہو چکی تھی۔ 1975 میں اگست کے مہینے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کوئٹہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لیے پہنچے تو ایک دستی بم دھماکے میں مجید لانگو نامی نوجوان ہلاک ہو گیا بعد میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ نوجوان بھٹو پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ مجید لانگو کا تعلق منگوچر کے علاقے سے تھا اور وہ طالب علمی سے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنی بی ایس او سے وابستہ تھا۔ مجید لانگو کی ہلاکت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی کی ولادت ہوئی جس کا نام مجید رکھا گیا، جس نے کالعدم بلوچ لبرشین آرمی میں شمولیت اختیار کی اور 2011 میں کوئٹہ کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ایک مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔ بی ایل اے کا کہنا ہے کہ اسی دن اس فدائی گروپ کی تشکیل کا اعلان ہوا اور استاد اسلم عرف اچھو نے اس کا نام دونوں بھائیوں کی بہادری کے پیش نظر مجید بریگیڈ رکھا ۔
تقہم بلوچستان میں حالیہ مسلح جدوجہد کا آغاز سابق وزیر اعلیٰ اور سینئیر سیاستدان نواب اکبر بگٹی کی ایک فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔ یہ افسوسناک واقعہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہوا جس کے بعد بلوچستان امن نہیں دیکھ پایا اور بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کی کاروائیوں میں اضافہ ہو گیا۔ صوبے میں اس وقت بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ریپبلکن آرمی، بلوچ نیشنل گارڈ دیگر تنظیمیں اور ان کے گروپس شامل ہیں جو مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان سب کو دہشتگرد تنظیمیں قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ان میں سب سے پرانی تنظیم بی ایل اے ہے۔
بلوچستان میں جاری عسکری تحریک پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار شہزادہ ذوالفقار بتاتے ہیں کہ اسلم اچھو اور بشیر زیب نے مجید بریگیڈ کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کے تربیتی اور اشاعتی مواد کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ سوچ تھی کہ وہ کچھ مزید پیشرفت کریں کیونکہ سب سے خطرناک اقدام یہ ہی ہوتا ہے کہ آپ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہیں پر گھس جائیں۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر اور مجید بریگیڈ کے سربراہ بشیر زیب بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین رہے ہیں۔ بعد میں انھوں نے بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق مجید بریگیڈ کے قیام کے مقاصد یہ ہیں کہ عسکری حوالے سے مخالف کو وہاں ضربیں لگائی جائیں، جہاں روایتی گوریلا جنگ میں ممکن نہیں۔ اسکا سیاسی مقصد دنیا اور دشمن کو یہ دِکھانا ہے کہ بلوچ آزادی کے حق سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس مقصد کے لیے ہم اپنی جانوں کے نذرانے پیش کریں گے۔ مجید بریگیڈ کے مطابق اس میں اور باقی مزاحمت کاروں میں فرق یہ ہے کہ گوریلا حملہ کرنے والے کو آپریشن کے بعد بحفاظت نکلنے کی تربیت دی جاتی ہے جبکہ مجید بریگیڈ کے فدائی کو اپنی جان کے قیمت پر مقصد حاصل کرنے کی تربیت ہوتی ہے، جس میں طویل مزاحمت کے لیے جسمانی برداشت کی بھی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ دنیا میں اپنے سیاسی مقصد کے لیے فدائی حملوں کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ اس بارے میں حسن الصباح، روس، یونان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
پاکستان انسٹیٹوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر اور شدت پسندی و عسکرت پسندی کے ماہر عامر رانا کا کہنا ہے کہ جو بھی سیکولر تحریکیں رہی ہیں ان میں بھی فدائی مشن کا سلسلہ رہا ہے، پھر چاہے وہ جاپان کی ہو یا تامل ٹائیگرز کی۔ سری لنکا کے تامل ٹائیگرز نے بھی فدائی حملے خود شروع نہیں کیے تھے بلکہ انھوں نے یہ تصور یونان سے لیا تھا۔ یہ تحریکیں ایک دوسرے کو کاپی کرتی ہیں۔ ایک عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ اس میں مذہبی اثرات ہیں جبکہ قوم پرستی کی اپنے اثرات اور روایات ہیں۔
یاد رہے کہ مذہبی شدت پسند تنظیمیں نوجوانوں کو خودکش حملوں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان نوجوانوں کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مؤقف ہے کہ ان کا برین واش کیا جاتا ہے۔ مجید بریگیڈ کے مطابق یہ بلوچ لبریشن آرمی کا مکمل طور پر ایک رضاکار ونگ ہے، جس میں کسی کو شامل نہیں کیا جاتا بلکہ نوجوان خود شعوری فیصلہ کرکے شامل ہوتے ہیں۔ شمولیت کے بعد تمام فدائیوں کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت، اپنا فیصلہ واپس لے سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذہب سب کا ذاتی معاملہ ہے، لہٰذا اجتماعی حوالے سے مجید بریگیڈ کسی سے جنت کا وعدہ نہیں کرتا۔ یاد ریے کہ بلوچستان کی مزاحمتی تحریک زیادہ تر پہاڑوں میں رہی ہے جبکہ مجید بریگیڈ نے شہری علاقوں میں بھی اہداف کو نشانہ بنایا ہے جس میں کراچی اور گوادار کے حملے شامل ہیں۔ بلوچ لبریشن فرنٹ نے ایران میں 1973 کی دہائی میں یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ پہلے شاہ ایران کے خلاف، اس کے بعد جو انقلاب آیا اس کی حکومت کے خلاف شہروں میں کارروائیاں کی گئیں۔ پاکستان میں بلوچ عسکریت پسندی میں اس طرز کے حملوں کی شدت بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تحریک میں تعلیم یافتہ نوجوان بھی آرہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان تک معلومات کی رسائی آسان ہو گئی ہے اور انھیں معلوم ہے کہ پوری دنیا مں کس قسم کی گوریلا تحریکیں جاری ہیں، کونسا حملہ زیادہ طاقتور ہو سکتا ہے۔ نظریہ یہ ہے کہ مشن بے شک ناکام بھی ہو جائے، پر اس کو میڈیا کوریج اتنی مل جاتی ہے کہ ریاست کے لیے وہ ایک مسئلہ بن جاتا ہے کیونکہ ان حملوں کا مقصد پیغام پہنچانا ہوتا ہے، جس میں وہ کامیاب رہتے ہیں۔