کرکٹ ٹیم کی ناکامیوں کی ذمہ داری محسن نقوی پرڈالنا جائزکیوں نہیں؟
نیویارک میں انڈین کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں پاکستانی ٹیم کی شکست کے بعد سوشل میڈیا پر چیئرمین پی سی بی محسن نقوی اور کرکٹرز پر سب سے زیادہ تنقید عمران خان کا حمایتی یوتھیا بریگیڈ کر رہا ہے۔ تا ہم ایسا کرتے ہوئے یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ گراؤنڈ میں کارکردگی کھلاڑیوں نے دکھانی ہوتی ہے، نہ کہ چیئرمین اور سلیکٹرز نے۔ تنقید کے نشتر چلانے والے عمرانڈوز کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عمران خان کی کپتانی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو اس سے بھی بری شکستوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سبزی والے سے لے کر ٹی وی چینلز پر بیٹھے ہوئے خود ساختہ تجزیہ کاروں تک، سب ہی انڈیا اور پاکستان کے میچ پر اپنے تبصرے پیش کر رہے ہیں۔ کرکٹ کی سمجھ بوجھ سے عاری یہ تجزیہ کار اس شکست کے پردے میں چیئرمین کرکٹ بورڈ محسن نقوی سے اپنی عناد نکال رہے ہیں۔ نجم سیٹھی سے لے کر رمیض راجہ تک کئی امیدوار چیئرمین بننے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ جن عمرانڈوز کو محسن نقوی سے عناد ہے وہ انڈیا کے ہاتھوں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شکست کو اڈیالہ جیل میں قید کپتان کی مظلومیت سے جوڑ رہے ہیں۔ لیکن ٹیم کی شکست کا الزام چیئرمین پی سی بی یا سلیکشن کمیٹی پر نہیں دھرا جا سکتا۔ سلیکشن کمیٹی کا کام اپنی دانش کے مطابق بہترین کرکٹرز کو کھیلنے کے لیے چننا ہے جبکہ چیئرمین صرف اس کی منظوری دیتا ہے، باقی گراؤنڈ میں جا کر اگر بڑے بڑے کھلاڑی بھی پرفارم نہ کریں تو سلیکشن کمیٹی اور چیئرمین کیا کر سکتے ہیں۔
نان فائلرز ٹیکس نیٹ میں نہیں آئے تو ان سے اضافی لیوی وصول کی جائے گی، وزیر مملکت برائے خزانہ
چیئرمین اور سلیکشن کمیٹی کو شکست کا ذمہ دار قرار دینے والوں کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ قومی ٹیم سابق کپتان عمران خان کی زیر قیادت اس سے بھی بری شکستوں کا سامنا کر چکی ہے۔ مختصر ہدف کے تعاقب میں پاکستان بیٹنگ کا یوں بکھر جانا اور داغ مفارقت دے جانا تو خاندانی روایات کی طرح ہے۔ لیکن شاید یہ دکھ اس لیے زیادہ محسوس ہورہا ہے کیونکہ شکست روایتی حریف مگر خود سے سو گنا بڑے ملک بھارت کے خلاف ہوئی ہے۔ لیکن اگر موجودہ کرکٹ ٹیم کے ناقد برا نہ منائیں تو ہم آپ کو اسی بھارت کے خلاف ایک اور میچ کا حال بیان کرسکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 22 مارچ 1987ء کو شارجہ میں ایک روزہ میچ کھیلا گیا تھا۔ پاکستان نے بھارت کو 126 پر آؤٹ کردیا۔ لیکن پاکستان کے نامور بیٹس مین جاوید میانداد، رمیز راجا اور سلیم ملک کچھ نہ کرسکے اور پوری ٹیم 87 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ جاوید میانداد نے صفر کا کارنامہ انجام دیا۔ اس میچ کے بعد سلیم یوسف کے بقول کپتان عمران خان نے خود کو کمرے میں بند کرلیا اور ہفتوں کسی ساتھی کھلاڑی سے بات نہیں کی حالانکہ موصوف خود بھی صفر پر آؤٹ ہوئے تھے۔
اسی طرح ایک چینل پر بیٹھ کر یونس خان اور مصباح الحق، یونس خان اور جدید فکسنگ کے ہیرو سلمان بٹ بابر اعظم کو جس انداز میں ہدف تنقید بنارہے تھے انہیں بھی ان کے زمانے کا ٹیسٹ میچ یاد دلادیتے ہیں۔ جب 2010ء میں آسٹریلیا کے خلاف سڈنی ٹیسٹ میں پاکستان کو جیت کے لیے 176 رنز کا ہدف ملا۔ اس تاریخی فتح کو یقینی بنانے کے لیے محمد آصف نے 6 وکٹیں لی تھیں لیکن سلمان بٹ سمیت کوئی بھی بلے باز وکٹ پر رک نہ سکا اور پوری ٹیم 139 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ آج کے بہترین ناقد مصباح الحق نے صفر کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ اسی طرح 2009ء میں یونس خان کی کپتانی میں پاکستان کو گال ٹیسٹ میں دوسری اننگز میں 168 رنز کا آسان ہدف ملا جو پاکستان پورا نہ کرسکا۔ پوری ٹیم 117 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی۔ شعیب ملک نے صفر کا کارنامہ انجام دیا تھا۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ٹی ٹوئنٹی میں مختصر ہدف دیکھ کر پسپائی تو مشہور ہو چکی ہے۔ ماضی میں اکثر مخالف ٹیمیں جلدی آؤٹ ہوجاتی تو مطمئن رہتیں کہ پاکستان کے لیے یہ ہدف بھی بہت مشکل ہے حالانکہ سب کچھ پاکستان کی موافقت میں ہوتا لیکن پھر بھی ٹیم ڈھے جاتی۔ پاکستان کا سب سے کم اسکور 60 رنز ہے جو اس نے 2013ء جوہانسبرگ میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنایا۔ تاہم یہ میچ 10 اوورز تک محدود تھا اس لیے ہماری یاداشتوں سے باہر ہے۔ لیکن باقاعدہ پوری 20 اوورز کی اننگز کا سب سے کم اسکور 99 ہے جو پاکستان نے 2021ء میں زمبابوے کے خلاف بنایا جب اسے 119 رنز کا ہدف ملا تھا۔ اس میچ میں بھی اوپنرز بابر اعظم اور محمد رضوان تھے اور مڈل آرڈر میں ناقد محمد حفیظ تھے لیکن پاکستان ایک غیر معیاری باؤلنگ کا سامنا نہ کرسکا