کراچی میں MQM الطاف کی سرگرمیاں دوبارہ شروع
ایم کیو ایم پاکستان کے اپوزیشن اتحاد سے ہاتھ ملانے اور پیپلز پارٹی سے معاہدے کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ مہاجر پارٹی کے مطالبے کے مطابق اس کے کراچی دفاتر کھلنا شروع ہوجائیں گے، تاہم اب ایک حیران کن پیش رفت ہوئی ہے اور ایم کیو ایم پاکستان سے پہلے الطاف حسین کی ایم کیو ایم لندن نے کھل کر کراچی میں اپنی تنظیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دی ہیں۔ ایم کیو ایم لندن نے تصدیق کی ہے کہ پارٹی نے دوبارہ سے کراچی میں سیاسی سرگرمیاں شروع کردی ہیں اور دو سینئر رہنماؤں کو پارٹی کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز فورم رابطہ کمیٹی کا رکن نامزد کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب ایک اور پیش رفت میں ایم کیو ایم لندن نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یعنی پیمرا کی جانب سے لندن میں مقیم الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر 2015 میں لگائی گئی پابندی ہٹانے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کر دی ہے۔ درخواست میں بتایا گیا ہے کہ لندن کی عدالت نے الطاف حسین کو دہشت گردی پر اکسانے کے الزامات سے بری کردیا ہے جس کے بعد کراچی میں ایم کیو ایم لندن نے اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں اور اسکے تنظیمی عمل کا بھی آغاز کر دیا گیا یے۔
لندن میں مقیم ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ عزیزآبادی کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ سابق رکن قومی اسمبلی کنور خالد یونس اور پاکستان میں مقیم بائیں بازو کے بزرگ رہنما مومن خان مومن کو بالترتیب رابطہ کمیٹی کا سینئر ڈپٹی کنوینر اور ڈپٹی کنوینر بنایا گیا ہے۔ دونوں ایم کیو ایم کے زیر حراست کارکنوں کے کیسز کی پیروی کریں گے اور لاپتا ساتھیوں کی بازیابی کے لیے بھی کام کریں گے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم لندن کے بقیہ تنظیمی سیٹ اپ کا اعلان آنے والے دنوں میں کیا جائے گا۔ اسکے علاوہ پارٹی کارکنوں سے کنور خالد یونس اور مومن خان سے رابطے میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس دوران یہ اطلاع بھی آئی ہے کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے الطاف حسین کی تقاریر پر ’غیر قانونی اور غیر آئینی‘ پابندی کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان تمام واقعات کے بعد اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا لندن کی عدالت سے الطاف حسین کی بریت کے بعد ان کی جماعت کو پاکستان میں سیاسی سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت مل چکی ہے؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر ان کی جماعت پر پابندیاں ختم ہو جائیں تو وہ ملکی سیاست میں ایک مرتبہ پھر کھلبلی مچا سکتے ہیں۔ برطانوی عدالت کے فیصلے کے بعد یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اپنی مائنس الطاف سٹریٹجی پر نظر ثانی کرنے کا سوچے گی۔
یاد رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کی لندن کی عدالت سے کارکنوں کو دہشت گردی پر اکسانے کے الزام سے بریت پر کراچی کے مختلف علاقوں میں جشن منائے جانے کے علاوہ وال چاکنگ بھی کی گئی تھی جن میں اس فیصلے کو ‘حق و سچ کی فتح’ قرار دیا گیا تھا۔ الطاف حسین پر الزام تھا کہ انھوں نے 22 اگست 2016 کو لندن سے ٹیلیفون کے ذریعے دو مختلف تقاریر میں مبینہ طور پر پاکستان کے خلاف نعرے بلند کیے تھے اور اپنے حامیوں کو کراچی رینجرز کے ہیڈکوارٹرز کے علاوہ اے آر وائی، جیو اور سما کے دفاتر پر حملے پر اکسایا تھا۔ لندن کی کنگسٹن کراؤن کورٹ کی 12 رکنی جیوری نے نو گھنٹے کے غور و خوض کے بعد الطاف حسین کو ایک اکثریتی فیصلے میں دونوں الزامات میں بے قصور قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ ایم کیو ایم لندن اور اس کی قیادت پر پاکستان میں غیر اعلانیہ پابندی ہے جبکہ ٹی وی چینلز پر الطاف کی تصویر و تقریر نشر کرنے پر بھی پابندی عائد ہے۔ تاہم برطانوی عدالت کے فیصلے کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اس سے الطاف حسین کو پاکستان میں سیاسی اور قانونی ریلیف مل سکتا ہے اور کیا یہ فیصلہ ان کی سیاسی لائف لائن ہے؟
پنجاب میں اپوزیشن اراکین کی رکنیت معطل کرنے کی سازش
الطاف حسین کے حامیوں کا کہنا ہے کہ لندن کی عدالت نے الطاف حسین پر 22 اگست 2016 کی تقریر پر بنایا جانے والا کیس ختم کر دیا ہے اور یہ ثابت ہوگیا کہ انہوں نے نہ تو کسی کو دہشت گردی پر اکسایا اور نہ ہی پاکستانی سیاست کے خلاف بغاوت کی بات کی۔ لہذا ان حالات میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اپنی مائنس الطاف اسٹریٹجی پر نظرثانی کرنی چاہئے۔
اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ برطانوی جیوری کی بریت کے فیصلے سے الطاف حسین کو ایک نئی سیاسی زندگی ضرور مل گئی ہے لیکن یہ فیصلہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو قبول نہیں ہو گا۔ انکا کہنا تھا کہ جب تک الطاف حسین کے معاملات اسٹیبلشمنٹ سے ٹھیک نہیں ہوتے وہ کوئی سرگرمی نہیں کر سکتے، اس لیے انھیں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ملے گا۔