مصطفیٰ عامر قتل کیس تفتیشی ٹیم نےخراب کیا، محکمہ پراسیکیوشن کا آئی جی سندھ کو خط

محکمہ پراسیکیوشن سندھ نےمصطفیٰ عامر کے اغوا اورقتل کیس میں پولیس کی تفتیش پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ پولیس کو خط لکھ کر سخت قانونی کارروائی کامطالبہ کردیا۔
ذرائع کاکہنا ہےکہ محکمہ پراسیکیوشن نےآئی جی سندھ کولکھے گئے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ انوسٹی گیشن ٹیم کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
خط میں کہا گیا ہےکہ ارمغان اور شیراز نے مصطفیٰ عامر کا بہیمانہ قتل کیا ہے،تفتیشی ٹیم نےپراسکیوشن کے کیس کو نقصان پہنچایا ہے۔
خط میں موقف اپنایا گیا ہےکہ ملزم ارمغان کے اعترافی بیان سےپہلےنہ تو پراسکیوشن کو آگاہ کیا گیا اور نہ ہی اعتماد میں لیا گیا، ذرائع کےمطابق ملزم ارمغان کا اعترافی بیان ایس ایس پی نےریکارڈ کررکھا ہے جو کہ قانون قابل قبول ہے۔
اعترافی بیان کی درخواست دائر کرنےوالی انویسٹی گیشن ٹیم کےخلاف سخت ایکشن لیا جائے کیونکہ انوسٹی گیشن کے اس اقدام سے کیس کونقصان پہنچا ہے۔
کیس کا پس منظر
یاد رہےکہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدرنے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبرسے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اورمقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں، اےوی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ ماراتھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کےنتیجےمیں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
گوجرانوالہ : ایف آئی اے نے 4 انسانی اسمگلرز کو گرفتارکر لیا
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نےجسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کاریمانڈ دینےکے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نےمصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سےمنحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارےکی مشترکہ کوششوں سے ملزم کےدوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نےاس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیرازکی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلےہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمےمیں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران کےمطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کےپاس کام کرتا تھا،قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالےسےمزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نےلاش کےپوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نےقبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالےسے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑےکی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کےبعد ارمغان نےمصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اورتشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعےرابطہ کیا جارہا ہے، کیس کےلیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔