بلوچستان میں چہرے کی تبدیلی سے کیا نظام بدل پائے گا؟

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان علیانی کے خلاف بھرپور مہم چلا کر انہیں استعفے پر مجبور کرنے کے بعد وزیراعلیٰ بننے والے سابق سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے جام کمال کی پرانی کابینہ سے ہی صوبے میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا وعدہ کیا ہے جس پر حیرانی کا اظہار کیا جا رہا یے۔ ناقدین سوال اٹھا رہے ہیں کہ جن وزراء کے ہوتے ہوئے جام کمال بلوچستان کے مسائل حل نہیں کر پائے انہی کی موجودگی میں عبدالقدوس بزنجو کیسے ڈلیور کر پائیں گے؟
سیاسی تجزیہ کار کے نزدیک بلوچستان میں جام کمال کے جانے اور عبدالقدوس بزنجو کے آنے سے صرف چہرہ تبدیل ہوا ہے لیکن نظام تبدیل نہیں ہو پائے گا۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ قدوس بزنجو تب کیا کریں گے جب انکے سامنے انکو ناکام بنانے کے بعد انہی کے ساتھیوں میں سے ایک اور عبدالقدوس بزنجو علم بغاوت لے کر کھڑا ہو جائے گا؟ بلوچستان میں یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری یے اور لگتا ہے کہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ بلوچستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جام کمال کے استعفے کو کچھ لوگ محض ایک ایسے شخص کی رخصتی سمجھتے ہیں جو بقول ان کے اپنے ساتھیوں کے لیے سویلین آمر تھا، وہ اہم وزارتیں اپنے پاس رکھتے تھے۔، بلوچستان کو واٹس ایپ اور ٹوئٹر کے ذریعے چلاتے تھے لیکن ان کا جانا ایک شخص سے زیادہ ایک کمزور نظام کی نشان دہی کرتا ہے جس کے فوری طور پر توانا ہونے کی کوئی امید نہیں اور لگتا یہی ہے کہ یہ چل چلاؤ جاری رہے گا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں اقتدار حاصل کرنے والے عموماً اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر آتے ہیں اور جب بھائی لوگ ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو وہ دھڑام سے نیچے آ گرتے ہیں۔ جان کمال کے ساتھ بھی یقینا کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔
عام طور جب کوئی وزیراعلیٰ چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو اس کے ساتھ اس کی کابینہ بھی تحلیل ہوتی ہے۔ صوبائی مشینری نئے وزیراعلیٰ اور کابینہ کے آنے تک جمود کا شکار رہتی ہے لیکن جام کمال کی رخصتی اور عبدالقدوس بزنجو کی آمد کے دوران ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ جام کو کرسی سے گرانے اور بزنجو جو بٹھانے والے دراصل کابینہ اراکین ہی تھے لیکن ناقدین سوال کرتے ہیں کہ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ لوگ بزنجو کے ساتھ بھی جام کمال والی واردات نہیں ڈالیں گے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بلوچستان کی سیاست ملک سے الگ تھلگ انداز میں چلتی ہے، یہاں کل کے دوست آج کے دشمن اور آجکے دوست کل دشمنی نبھاتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ بزنجو نے جام کمال سے بغاوت کرنے والوں کو عہدے دے کر اپنی کرسی مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جس طرح جام نے مکافات عمل کا عملی مظاہرہ دیکھا کچھ ایسا ہی مستقبل میں میر عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے کیونکہ باغی کی فطرت میں بغاوت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے خصوصا جب وہ اصولون کی بجائے ذاتی مفادات پر مبنی یو۔
حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں بغاوت کے نتیجے میں پارٹی کے سابق صدر اور صوبے کے وزیراعلیٰ جام کمال کے استعفے نے ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیا ہے کہ بلوچستان میں حکومتیں یا وزرائے اعلیٰ کیوں دیر تک نہیں چل پاتے۔ کیا بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ اسلام آباد کی نہ ختم ہونے والی مداخلت ہے یا اس کے برعکس صوبے کے معاملات میں اسلام آباد کی عدم دلچسپی حالات کو اس نہج پر پہنچانے کی ذمہ دار ہے۔ کچھ ناقدین یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا بلوچستان کے سیاسی رہنما اپنا صوبہ چلانے کےاہل ہیں یا نہیں یا انہیں ہر وقت اسلام آباد کا ہاتھ تھام کرچلنا پڑے گا۔ کیا اسلام آباد بلوچستان کے رہنماؤں کو کچھ دیر کے لیے یہ سوچے بغیر ان کے حال پر چھوڑ سکتا ہے کہ یہ ایک دوسرے سے دست و گریبان نہیں ہوں گے؟ جب جام کمال کے خلاف ان ہی کے دست راست رہنما بغاوت پر اتر آئے اور انہوں نے اپنے ساتھیوں کی بغاوت پر کم اور تحریک انصاف کی مداخلت کو زیادہ جواز بنا کر وزیر اعظم عمران خان سے مدد مانگی تو انہوں نے غیر جانبدار لاتعلق رہنے کو ترجیح دی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جام کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں تھا اور ماضی میں جب مسلم لیگ ق، نواز یا پیپلز پارٹی کے وزرائے اعلیٰ کو اس طرح کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا تو وفاقی حکومت اختلافات ختم کرنے کی کوشش کرتی رھی، لیکن باپ چونکہ ایک قومی پارٹی نہیں ہے بلکہ صرف بلوچستان کی حد تک محدود ہے لہازا بلوچستان میں مقیم پارٹی قیادت ہی سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے اختلافات مقامی سطح پر حل کریں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ یہ جماعت نئی ہے اور ابھی اتنی پختہ نہیں ہوئی کہ اندرونی خلفشاراور اختلاف رائے کو خوش اسلوبی سے حل کر لے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جام کمال کے خلاف بغاوت کامیا ب ہو گئی لیکن تاحال یہ بات واضح نہیں ہوئی کہ جام اور ان کے وزرا کے مابین اختلاف بنیادی طور پر کن پالیسیوں پراختلاف رہا۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک گروہ بلوچ مسلح تنظیموں سے مذاکرات کے حق میں تھا اوردوسرا اس کےخلاف۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ لاپتہ افراد کے معاملے یا گوادر میں باڑ لگانے کے مسئلے پر اختلاف تھا۔ ایک جمہوری معاشرے میں پالیسی ایشوز پر اختلافِ رائے بڑی صحت مند چیز ہوتی ہے۔ معاملات پر بحث و مباحثہ کرنے اور مختلف رائے دینے سے جمہوری عمل مضبوط تر ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں موجودہ بحران پالیسیوں پر اختلاف کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ شخصیات اور انکی انا کے ٹکراؤ کا نتیجہ تھا۔ لہذا سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا اور بلوچستان کے عوام کب تک اس انتشار، افراتفری اور سیاسی عدم استحکام کا شکار رہیں گے۔