میری کہانی!

تحریر : عطا ء الحق قاسمی

بشکریہ: روزنامہ جنگ

(گزشتہ سے پیوستہ)

نوائے وقت میں گزرے ہوئے میرے ماہ و سال میرے لئے ناقابل فراموش ہیں جائننگ کے پہلے دن مجھے محمود شام کے حوالے کردیا گیا اور یوں میں نے صحافت کا پہلا درس محمود شام سے لیا اور اس طرح وہ میرے استاد ٹھہرے۔ مجید نظامی بظاہر بہت سنجیدہ اور عملے کے ساتھ سخت گیر تھے مگر میری یہ خوش قسمتی کہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور آہستہ آہستہ انہوں نے میرے لئے ایک بزرگ دوست کی شکل اختیار کر لی۔ کبھی کبھی اپنے دفتر میں چائے کیلئے طلب کرتے۔ وہ بسکٹ پلیٹ میں نہیں رکھتے تھے بلکہ میز کے دراز میں سے بسکٹ کا ڈبہ نکالتے اور اس میں سے ایک پیکٹ آگے کو پھسلا کر سگریٹ کی طرح پیش کرتے۔ ایک بار انہوں نے مجھے بلایا تو ٹائمز کا تازہ شمارہ ان کے سامنے تھا، انہوں نے ایک صفحہ میرے سامنے کیا جس پرایک نیم عریاں حسینہ کی تصویر تھی، پوچھنے لگے کیسی ہے؟ میں نے کہا بہت خوبصورت، پھر مسکراتے ہوئے بولے ’’کیا خیال ہے اسے سنڈے ایڈیشن میں ری پروڈیوس نہ کیا جائے، مجھے علم تھا وہ دل لگی کے موڈ میں ہیں۔ میں نے کہا جی کم از کم ہاف پیچ پر تو ہونا چاہیے۔ اس پر وہ مسکرائے اور میگزین واپس دوسرے میگزینز کے ساتھ رکھ دیا۔ اسی طرح ایک روز چائے کے کپ کے ساتھ سگریٹ کی طرح ایک بسکٹ میری طرف سرکاتے ہوئے بتایا کہ جب وہ لندن میں زیر تعلیم تھے انہوں نے ایک دفعہ بیئر بھی پی تھی۔ اس پر میں نے لبرٹی لیتے ہوئے کہا ’’سر پھر چھوڑنی تو نہیں چاہیے تھی‘‘۔ اس دفعہ انکی مسکراہٹ کا دورانیہ طویل تھا۔ نوائے وقت میں میرے کولیگ رنگ برنگے تھے ہمارے ایک نیوز ایڈیٹر آذر صاحب سوٹ میں ملبوس دفتر میں داخل ہوتے کوٹ کی بالائی جیب پر رنگ برنگ قلم ٹھونسے ہوتے۔ اپنی کرسی پر بیٹھنے سے پہلے اپنا ہیٹ اتار کر میز پر رکھتے اسکے بعد سارے قلم ایک ترتیب سے رکھتے اور پائپ سلگا کر اسکے کش لگانے لگتے اور پھر اس کے بعد کام کا آغاز کر کے ہم نشینوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دیتے۔ ان کی موجودگی میں ہمارا کمرہ زعفران زار بنا رہتا پھر ایک وقت آیا کہ کافی دن وہ دفتر نہ آئے سب کو تشویش ہوئی میں انہی دنوں سمن آباد کے گندے نالے کی طرف سے گزر رہا تھا میں نے انہیں وہاں بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس دیکھا میں ان کی طرف بڑھا اور کہا آذر صاحب آپ کہاں غائب ہیں سارا دفتر آپ کو یاد کرتا ہے مگر انہوں نے میری کسی بات کا جواب نہیں دیا بلکہ ایک اجنبی کی طرح میری طرف دیکھتے رہے جب میں نے ان سے دوتین باتیں مزید کیں تو سپاٹ چہرے کے ساتھ وہ اٹھے اور وہاں سے چل دیئے کچھ دن بعد اطلاع ملی وہ انتقال کرگئے ہیں۔ میرے وہ کیا لگتے تھے مگر میں اس دن پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ ہمارے دفتر میں ایک بہت معزز شخصیت ایک شعبے کی سربراہ تھی میں نے انہی دنوں نوائے وقت میں ادبی صفحہ کا آغاز کیا جو اخبار کے سارے ایڈیشنوں میں بیک وقت شائع ہوتا تھا۔ پورے پاکستان میں اس ادبی صفحے کی دھومیں مچ گئیں مگر انتظار حسین اور مسعود اشعر نے اس ’’بدعت‘‘ کے خلاف کالم لکھا کہ اخبار کا ادب سے کیا تعلق، مگر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ عوام میں اس صفحے کی بے پناہ پذیرائی دیکھ کر انتظار حسین اور مسعود اشعر جن اخبارات میں کام کرتے تھے انہوں نے بھی ادبی ایڈیشن شائع کرنا شروع کردیا اور میرے ان دونوں قابل قدر بزرگوں کو اس کا انچارج بنا دیا اور پھر وہ اپنے اپنے اخباروں کے ادبی ایڈیشنوں کو بہتر سے بہتر بنانے میں لگے رہے۔ میں نوائے وقت کے ادبی ایڈیشن میں مرکزی شہروں کی ادبی ڈائری شائع کرتا اور لکھنے والے ممتاز ادیب ہوتے۔ نئے شاعروں کی حوصلہ افزائی کیلئے ان کی تخلیقات کو نمایاں جگہ دیتا۔ مختلف شہروں کے ادیبوں کی مختلف شہروں میں آمد و رفت کی خبریں بھی لگاتا، اس کے علاوہ ملک کے سینئر ادیبوں کی غیر مطبوعہ تخلیقات کے حصول میں بھی لگا رہتا۔ حضرت انجم رومانی زود گو نہیں تھے، کم لکھتے تھے مگر معیار بلند رکھتے تھے۔ میں انکی طرف بیسیوں پھیرے لگانے کے بعد انکی ایک غیر مطبوعہ غزل حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ میں خوش خوش دفترآیا اور شہباز نامی کاتب کو وہ غزل کتابت کیلئے دی اور اس پرجلی حروف میں ڈبل کالم لکھنے کی ہدایت بھی کردی۔ غزل جب کتابت ہو کر آئی تو وہ ڈبل کی بجائے سنگل کالم میں تھی، میں نے اسے بلایا اور کہا یہ ڈبل کالم لکھ کر لائو۔ مگر جب وہ دوسری اور تیسری مرتبہ بھی میری ہدایت کے برعکس سنگل کالم ہی لکھ کر لایا تو میں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تمہیں میری بات سمجھ نہیں آ رہی۔ اس پر اس نے ڈرتے ڈرتے ہوئے کہا سر سمجھ تو پہلی بار ہی آگئی تھی مگر مجھے کہا گیا کہ یہ غزل ڈبل نہیں سنگل کالم لکھنی ہے ۔ یہ حکم اس معزز شخص نے دیا تھا جسکا میں نے آغاز میں ذکر کیا تھا۔ ان دنوں نیوز سیکشن کے سب لوگ ایک ہال میں بیٹھتے تھے۔ یہ بات ابھی ہو ہی رہی تھی کہ ان صاحب کی بدقسمتی ،وہ بھی تشریف لے آئے۔ میں نے پوچھا آپ نے یہ غزل سنگل کالم لکھنے کا کہا تھا، بولے ہاں میں نے حکم دیا تھا، ڈبل کالم سے اسپیس ضائع ہوتی ہے۔یہ سن کرمیں نے ایک زور دار گھونسہ انکے منہ پر مارا جس سے وہ چکرا کر فرش پر گر پڑے۔پھر میں انہیں ٹانگوں سے گھسیٹتا ہوا اپنے کمرےمیں لے گیا اور اندر سے کنڈی لگا کر ان کے ’’مختلف‘‘ مقامات پر ٹھڈے مارے۔ میں اس وقت ’’شالا جوان‘‘ اور میرا غصہ کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ باہر سے لوگوں نے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا تھاتاکہ اس معزز شخص کو میرے چنگل سے چھڑایا جاسکے۔جب میری مکمل تسلی ہوگئی میں نے دروازہ کھول دیا اور موصوف جو لہو لہان ہو چکے تھے اس ’’عقوبت خانے‘‘ سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب مجھے اندازہ تھا کہ کیا ہوگا۔ چنانچہ تھوڑی دیربعد مجید صاحب کا خاص الخاص نائب قاصد منیر میرے پاس آیا اور کہا صاحب آپ کویاد کر رہے ہیں، میں ہر قسم کے انجام کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو کر مجید صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ وہاں وہ صاحب پہلے سے موجود تھے۔ میں انکے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔

میری کہانی!

 نظامی صاحب نے مجھ سے پوچھا آپ نے انہیں کیوں مارا! میں نےساری بات بتائی تو نظامی صاحب نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے پہلے انہیں مخاطب کیا اور کہا آپ آئندہ قاسمی صاحب کے کام میں دخل نہیں دیں گے۔ پھر مجھے مخاطب کیا اور کہا قاسمی صاحب آپ انہیں آئندہ ماریں گے نہیں۔ اس روز پورے دفتر میں جشن کی سی کیفیت پیدا ہوگئی کہ سب ان نے تنگ تھے مگر کوئی انہیں لگام دینے والا نہ تھا بلکہ مجھے محسوس ہوا کہ شاید خود نظامی صاحب بھی میری اس جوانمردی پر خوش ہیں۔ (جاری ہے)

Back to top button